• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں گزشتہ کالموں میں یہ بات ریکارڈ پر لایا تھا کہ پاکستان بننے کے فوری بعد اور ون یونٹ بنانے کے بعد دو مرحلوں میں مرکزی حکومت نے سندھ کے خزانے سے تقریباً 61کروڑ روپے کا قرض لیا جو ابھی تک سندھ کو واپس نہیں کیاگیا۔ یہ انکشاف سندھ کے ایک مشہور محقق پروفیسر اعجاز قریشی نے اپنی سندھی زبان میں لکھی گئی کتاب ’’کراچی جو کیس‘‘ (کراچی کا کیس) میں کیا ہے۔ پروفیسر اعجاز قریشی نے اِس سلسلے میں اعداد و شمار اور حقائق سندھ کی ایک ممتاز دانشور اور محققہ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کی کتاب سے لئے ہیں۔ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو سندھ کے پہلے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو کی بیٹی ہیں ،اُنہوں نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا تھا کہ 1947میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ ملک غلام محمد نے سندھ سے قرضہ مانگا۔ حقائق کے مطابق ہندوستان کی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو 60کروڑ روپے نقد ادا کرے گی مگر چونکہ یہ رقم پاکستان کے حوالے نہیں کی گئی تھی لہٰذا مرکزی حکومت نے سندھ حکومت کو کہا کہ وہ اپنے مالی وسائل ان کے حوالے کرے تاکہ ملک کا کاروبار چلایا جا سکے۔ جواب میں سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو نے وفاقی حکومت کو آگاہ کیا کہ انہوں نے سندھ کی رقم بینکوں میں جمع کرادی ہے لہٰذا وہ کسی نامناسب طریقے سے سندھ کے یہ پیسے بینکوں سے نکال کر نہیں دے سکتے۔ اُنہوں نے وزیر خزانہ کو مشورہ دیا کہ وہ یہ رقم ہندوستان سے طلب کریں جس پر یہ رقم واجب الادا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے اس صورتحال کے حوالے سے وزیراعظم لیاقت علی خان سے فریاد کی، وزیراعظم نے ایک پیغام کے ذریعے سندھ کے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو کو اپنے پاس بلایا اور انتہائی جذباتی انداز میں اُن کو کہا ’’یہ آپ کی حکومت ہے۔ کیا ہم آپ کے ہوتے ہوئے بھوکے مریں؟‘‘۔ وزیراعظم نے مزید کہا ’’ہمارے پاس تو تنخواہیں دینے کے لئے بھی رقم نہیں ہے‘‘۔ جواب میں ایوب کھوڑو نے وزیراعظم کو کہا کہ ہم پہلے ہی کافی رقم خرچ کرچکے ہیں اور ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں پر مزید خرچہ کیا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں ہم اپنے دفاتر آپ کے حوالے کر چکے ہیں اور جو کچھ ہو سکتا تھا وہ آپ کے لئے کردیا۔ ایوب کھوڑو نے بتایا کہ وزیراعظم کی طرف سے اصرار کرنے پر میں نے مرکزی حکومت کو سندھ کے خزانے سے 3فیصد سود پر 30کروڑ روپے دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔بعد میں 1969میں ایوب کھوڑو نے ایک پریس بیان میں کہا کہ سندھ کی حکومت نے پاکستان کو 28کروڑ روپے دیے اور بعد میں ون یونٹ بننے کے بعد سندھ نے مغربی پاکستان کو 33کروڑ روپے دیئے کیونکہ اس وقت پنجاب کے مالی حالات خراب تھے اور اس پر 96کروڑ روپے کا قرضہ تھا۔ بعد میں ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو نے بتایا کہ یہ ساری رقم سندھ کو واپس نہیں کی گئی۔ دریں اثنا 1948میں ملک کا پہلا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے صوبوں کو یہ کہہ کر سیلز ٹیکس خود وصول کرنے کا فیصلہ کیا کہ یہ فیصلہ محض دو سال کے لئے ہوگا مگر مرکزی حکومت نے اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مستقل طور پر سیلز ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات اپنے پاس رکھ لئے حالانکہ سندھ کے وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو نے 2مارچ 1948کو مرکزی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ مرکز نے سیلزٹیکس کو مرکزی ٹیکس کے طور پر وصول کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ واقعی دو سال کے لئے ہوگا مگر ایسا نہیں کیا گیا اور نہ آج تک دو مرحلوں میں سندھ سے حاصل کئے گئے 61کروڑ روپے میں سے ایک پائی بھی سندھ کو لوٹائی گئی ہے لہٰذا مرکز آج بھی سندھ کا 61کروڑ روپے کا مقروض ہے۔ اس سلسلے میں جب سندھ کے کچھ سینئر افسران سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ آج تک مرکزی حکومت نے اِس قرضے سے ایک پائی بھی واپس کرنے کی بات کی ہے اور نہ ہی سندھ کی صوبائی حکومتوں میں سے کسی حکومت نے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ کا یہ قرضہ واپس کیا جائے لہٰذا اب سندھ کے اکثر سیاسی حلقوں میں یہ بات کی جارہی ہے کہ سندھ کے لوگوں اور سیاسی رہنمائوں کو اجتماعی طور پر مرکزی حکومت سے مطالبہ کرنا پڑے گا کہ یہ قرضہ سندھ کو واپس کیا جائے (واضح رہے کہ اُس وقت کی61کروڑ روپے کی رقم آج کے تقریباً 9ہزار 699کروڑ روپے کے برابر بنتی ہے)۔ پروفیسر اعجاز قریشی کی اِس کتاب میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی پہلی مرکزی کابینہ میں سندھ کی نمائندگی کیا تھی اور پاکستان کی جو بیورو کریسی سامنے آئی، اِس میں سندھ کی کیا نمائندگی تھی؟ پروفیسر اعجاز قریشی کی کتاب ’’کراچی جو کیس‘‘ میں بتایاگیا ہے کہ 15اگست کو قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور نوابزادہ لیاقت علی خان نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جن وفاقی وزیروں نے اُس دن حلف اُٹھایا اُن میں اسماعیل ابراہیم چندریگر (تجارت و صنعت اور تعمیرات)، ملک غلام محمد (خزانہ)، سردار عبدالرب نشتر (مواصلات)، راجا غضنفر علی خان (خوراک، زراعت، صحت اور مہاجروں کی آبادکاری)، جوگندر ناتھ منڈل (قانون)، فضل الرحمٰن (داخلہ، اطلاعات و نشریات، تعلیم اور آبادکاری) شامل تھے۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین