• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ لفظ، اپنے بے پناہ استعمال کے باعث، بے معنویت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ادارے چاہے وہ قومی ہوں کہ بین الاقوامی ،کارکردگی کی بنا پر مجہول اور بے مقصد کہلاتے ہیں۔ بقول انور مقصود ’’گیارہ بندے موٹے چشمے لگا کر دور بین سے پہلی کا چاند ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں‘‘۔ یہ سارا عمل، اس سائنسی دور میں بے معنی لگتا ہے۔ آگے آئیں تو سال میں ایک نہیں کئی بار اوآئی سی کے اجلاس ہوتے ہیں۔ یہ مسلمان ممالک کی محض حرف گیری کی نشست ہوتی ہے۔ اس میں نہ کوئی مسئلہ حل کیا جاتا ہے اور نہ کوئی فیصلے پر عملدرآمد ہوتے دیکھا گیا ہے۔ دیکھئے نا، انڈیا کشمیر کو بارڈر لائن سے بغیر کسی حیل و حجت، ضم کرکے، وہاں مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی کرا رہا ہے اور ہم اعلان نامے جاری کرکے، دنیا کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہبی امور کا محکمہ الگ اور اسلامی نظریاتی کونسل الگ ہے۔ دونوں کی تقسیم کار کی آج تک خبر نہیں۔ اسی طرح زراعت میں دیکھیں اور پھر صحت کی جانب نظر کریں تو کم از کم بارہ تیرہ ادارے ہوں گے جو اس نام سے موجود ہوں گے۔ کام کے بارے میں، ان کا حاشیہ اس وقت کھلتا ہے جب ٹڈی دل کا حملہ ہو، سیلاب آئیں یا قحط کا اندیشہ ہو۔ تعلیم کہنے کو صوبائی معاملہ ہے مگر مرکزی حکومت ہر روز خبرنامہ جاری کرتی ہے۔ نصاب کیا ہونا چاہئے۔ کچھ ریٹارڈ پروفیسر پریم چند کو نکال دیتے ہیں کہ وہ ہندو تھا اور رتن ناتھ سرشار کو مسلمان سمجھ کر شامل کرلیتے ہیں۔ علامہ اقبال اور غالب کا فارسی کلام ڈاکٹریٹ میں بھی اس لئے نہیں پڑھایا جاتا کہ پڑھانے والوں نے فارسی سرے سے پڑھی ہی نہیں ہوتی۔ باقی رہا معذور افراد کا محکمہ یا نہری پانی کا مسئلہ تو اِس معاملے پر مقدمات، قتل اور دشمنیاں بہت ملیں گی۔ باقی رہے نام اللہ کا۔ ہر روز میڈیا اور بظاہر انسانی حقوق کے ادارے کہتے ہیں کہ ’’بچوں سے مزدوری کروانا جرم ہے، بھٹے پہ کام کرنا جرم ہے، ماں باپ کو گھر سے نکال دینا جرم ہے، عورتوں کے ساتھ زیادتی، مارنا اور تیزاب پھینکنا جرم ہے، بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کو مار دینا جرم ہے‘‘۔ واپس پلٹ کے دیکھو چاہے تھر ہو کہ بدین کہ خضدار کے شمالی علاقہ جات، کہاں کہاں یہ سب گزشتہ ستر برس سے ہورہا ہے؟

ساتھ ہی فلسطین کو اپنی زمین سے نکال کر اردن، غزہ کی پٹی میں وہی اوآئی سی نعرہ زن ہوتی ہے کہ فلسطین کو بطور ملک قبول کرو۔ اگلے دن ہی دندناتے ہوئے یہودی ٹینکر پناہ گزین فلسطینیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس پر کوئی احتجاج ہی نہیں کرتا۔

ویسے تو تجربات نے بتایا ہے کہ جمہوریت بھی بے معنی لفظ ہوگیا ہے۔ ہر طاقتور ملک جس خطے پہ چاہے، قابض ہوجاتا ہے۔ ساری دنیا کے سیاسی مساوات کے ادارے خاموش رہتے ہیں۔ کبھی کبھی سینٹرل صدر یواین او بولتا ہےمگر کون فکر کرتا ہے؟ بڑی طاقتوں نے جب طے کیا کہ مصر اور عراق جو مسلمانوں کی تہذیب کے مراکز تھے، ان ممالک کو ایسے غارت کیا جائے کہ آنے والی نسلوں کو صرف کتابوں میں ان تہذیبوں کے بارے میں، اگر چاہیں تو پڑھنے کو ملے۔ ویسے بادشاہتوں کو اپنے شہزادوں اور بیگمات کے ساتھ، خاموش عوام کے ساتھ جو کچھ بیتی ہے، اس کو بڑی بڑی جمہوریتیں قبول کرلیتی ہیں۔ غلامی اور ذہنی غلامی کو مضبوط کرنے کے لئے سارے ملکوں کے میڈیا ہائوسز، اپنی بقا کے پروگراموں میں کہتے ہیں کہ یہ تو عارضی زندگی ہے۔ دائمی زندگی تو موت کے بعد ملے گی، اس لئے اس زندگی کے لطف کو مقدر کا لکھا یا لوح محفوظ میں لکھا سمجھو۔2020ء نے تو ہماری نعمت اور احساسِ زیست کو بھی معدوم کردیا ہے۔ کورونا سے کیوں ڈریں، اللہ کی طرف سے عذاب ہے۔ قرنطینہ کیوں کریں، جو مقدر میں لکھا ہے، وہ تو ہونا ہے۔ اب بھی گندھک کے چشموں پر کبھی ہجوم کم نہیں ہوتا۔ بابا شکر گنجؒ کے مزار کے بہشتی دروازے سے جنت جانے کے لئے لوگ کیسے بھاگتے ہیں۔

ہمارے میڈیا میں نوجوان تحقیقی پروگرام پیش کرتے ہیں کہ دودھ یا برفی کی جگہ یا مرچوں کی جگہ یا ٹماٹو ساس کی جگہ ہمارے چھوٹے شہروںکے ڈھابوں پر کیا کھلایا جاتا ہے؟ پھر ہم بات کرتے ہیں ’’تقویٰ‘‘ کی۔ محض بغیر معانی کے قرآن شریف پڑھنے سے بچوں کی ذہنی اور مذہبی تربیت نہیں ہوسکتی۔ اب جبکہ دنیا میں معنی کے ساتھ قرآن پڑھانے کے لئے پروگرام بھی مل جاتے ہیں۔ پھر بھی ہمارے ہاں وہی پرانا دستور علم چل رہا ہے۔’’ڈھائی سال سے این آراو، نہیں دوں گا‘‘، سنتے سنتے کان پک گئے ہیں ۔ان ڈھائی سالوں میں کسی کو باقاعدہ سزا بھی نہیں دی گئی۔ البتہ فوجی رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ہم نے ایسے مذاکرات 65ء کی جنگ، 71ء کی جنگ، کارگل اور آج کل روز ہمارے شہید کشمیر میں، کب تک سنیں۔ یہ ملاقاتیں نتیجہ خیز کیوں نہیں ہوتیں اور سچ پوچھئے تو مہنگائی کا لفظ بھی بے معنی ہوگیا ہے۔ اب سب کو گھر کی روٹی کھانے کی مجبوری ہے۔ اور ذکر کیا تو بات دور تک چلی جائے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین