• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کی دوسری لہر نے دنیا بھر میں تباہ کاریوں میں اضافہ کرد یا ہے اور وبائوں کے بارے میں نئی نئی توجیحات سامنے آرہی ہیںجس سے یہ بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود انسان کو ہمیشہ کے لیے ان وبائوں سے لڑنا سیکھنا ہوگا۔اس سرزمین پر ایک وقت ایسا بھی تھا جب انسان اپنے ماحول سے کھلواڑ کیے بنا اس کرہ ارض پر رہتا تھا۔وہ اپنی خوراک شکار یا جنگل میں پیدا ہونے والے پھلوں سے حاصل کرتا تھا۔لیکن زرعی معاشرت کے دور میں جنگلوں کو کاٹ کر نئے میدانوں میں کھیتی باڑی نے زمین پر آبادکیڑوں کے نظام زندگی کو تاراج کر دیا۔اس عمل میں کچھ کیڑے مر گئے ،کچھ نے وبائیں پھیلائیں ۔اس دوران انسانوں کا مدافعاتی نظام بھی بدلا اور یوں نئے حالات میں کیڑوں اور انسانوں نے نئی بیماریوں کے ساتھ رہنا سیکھ لیا۔لیکن اس عمل میں دیوہیکل ڈائناسارزاور دوسرے جانداروں کی نسلیں ختم ہوگئیں لیکن بیکٹیریا اس تباہی سے بچتا رہا۔تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بیکٹیریا نہ صرف اپنے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ ان میں وہ اتحاد ہے جو انسانوں میں بھی نہیں۔انسان نے جس تیز رفتاری سے نئے نئے اینٹی بائیوٹک اور ویکسین بنائے بیکٹیریا نہ صرف اتنی ہی تیزی سے اس سے بچائو کے راستے تلاش کرلیتا ہے بلکہ وہ دنیا بھر کے بیکٹیریا میں یہ علم عام کردیتا ہے۔ انسان اس سرزمین پر دوسرے جانداروں کی زندگی کو مستقل درہم برہم کرتا رہتا ہے اور پھر وہ سب اپنے بچائو کے لیے انسان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ بیکٹیریا کا اپنے اتحاد کی بدولت اس کرہ ارض پر اپنی بقاکو قائم رکھنا دراصل انسانوں کے لیے ایک وارننگ ہے ۔’’سوچ سمجھ کر زندہ رہو اور جان لو کہ ہماری یہ زمین کتنی آبادی،کتنی آلودگی اور جنگلوں کی کتنی کٹائی برداشت کر سکتی ہے‘‘؟

زرعی معاشرت کے فروغ اور جنگلات کو کھیتی باڑی کے لیے استعمال کرنے کے باوجود صنعتی انقلاب سے پہلے انسانی سماج بڑی حد تک ماحولیات اور قدرت سے ہم آہنگی میں تھا، اس کی بڑی وجہ قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کا استعمال تھا۔لیکن بے لگام سرمایہ دارانہ نظام نے اس ہم آہنگی میں دراڑیں ڈال دیںکیونکہ اس نظام کی بنیاد مارکیٹ پر تھی جو مسلسل شرح نمو یعنی گروتھ میں اضافے کا متقاضی تھالیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس شرح نمو کی کوئی آخری حد بھی ہے؟منصور خان نے اپنی کتاب ’تھرڈ کرو‘ میں یہ بات دلائل سے ثابت کی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی شرط کرہ ارض کی حقیقتوں سے مطابقت نہیں رکھتی ۔یاد رہے کرہ ارض پر موجود ریسورسز لامتناہی نہیں ہیں بلکہ وہ جیولوجی کے اصول پر کاربند ہیں لہٰذا اقتصادی نظام اس پر اتنا ہی بوجھ ڈال سکتاہے جتنا اس کے لیے قابل برداشت ہو۔اگر غیر فطری طورپر شرح نمو میں اضافے کو جاری رکھا گیا تو کچھ ہی عرصے میں اس کرہ ارض پر موجودزندگی اور ریسورسزدونوں ختم ہوجائیں گے۔گر یہ مان لیا جائے کہ دنیا میں اقتصادی ترقی چار فیصد سالانہ ہو تو ایک صدی میں یہ ترقی 50گنا بڑھ جائے گی اور یوں5سو برسوں میں 31کروڑ گنا ہو جانی چاہئے، جس کا تصور بھی محال ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ داری نظام کی گروتھ کے اصول کا تصورہی ناممکن ہے۔

سرد جنگ کے خاتمے اور اس کے نتیجے میں گلوبلائزیشن کے فروغ نے وبائوں کو بھی گلوبل بنا دیا۔نوے کی دہائی میں برڈ فلو H5N1کا ظہور ہوا جس سے اقوام متحدہ کے تین ذیلی ادارے(عالمی ادارہ صحت،فوڈ اینڈ ایگریکلچر،ورلڈ اینیمل ) میدان میں اتر آئے تاکہ ان وبائوں کا مداوا کیا جاسکے لیکن اقوام متحدہ کے ان اداروں کا انحصار امیر ممالک کی امداد پر ہے ۔یاد رہے کہ یہ وہ امیر ممالک ہیں جن کی آبادی تو دنیا کے بیس فیصد پر مشتمل ہے لیکن وہ دنیا کے اسی فیصد ریسورسز استعمال کرتے ہیں۔امریکا نے جلد ہیجو اقوام متحدہ کے ان اداروں کا سب سے بڑاڈونر تھا، نے ان کی امداد بند کردی اور اس کی جگہ پرائیویٹ سرمایہ دارانہ اورخیراتی ادارے کے طور پر بل گیٹس نے ان کی امداد شروع کی۔اس وقت یہ پرائیویٹ کارپوریشنیں اقوام متحدہ کے اداروں کی ستر فیصد فنڈنگ کرتی ہیں جس کی وجہ سے یہ کارپوریشنیں براہ راست اقوام متحدہ کے اداروں پر اثر انداز ہونے لگی ہیں۔دوسری طرف ان سرمایہ دار کمپنیوں کی امداد کی وجہ سے حکومتوں کا براہ راست کردار ختم ہو گیا ہے ۔سونے پر سہاگہ ایک طرف تو یہ سرمایہ دار کمپنیاں اقوام متحدہ کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے عام عوام کے لیے کوئی پالیسی نہیں بننے دیتیں تو دوسری طرف خیراتی فنڈنگ کے باعث اپنے ٹیکس میں بھی کمی کروا لیتی ہیں۔یوں گلوبل سرمایہ داری نظام نے کھل کر یہ اعلان کردیا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔یاد رہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے وہ ادارے (UNIDO,UNACTAD)جو تیسری دنیا کے لیے ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی کا باعث بن رہے تھے، ان کی امداد امیر ملکوں جن میں امریکا،کینیڈا اور آسٹریلیا شامل تھے، نے بند کر دی جس کی وجہ سے وہ غیر فعال ہوگئے۔

اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود کیونکہ انسان کو ان وبائوں سے ہمیشہ لڑنا اور سیکھنا ہوگا، اس لیے ہمیں اس کرہ ارض پر ماحول کے ساتھ انسانی بقا کیلئے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔اس لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ایک ذمہ دار نظام میں تبدیل کیا جائے اور دنیا کے تمام ممالک ماحولیاتی نظام کی بقا کے لیے بین الاقوامی ماحولیات کے سارے مسائل اقوام متحدہ کے سپرد کردیں جس کے فیصلے ہر فرد اور ہر قوم پر واجب ہوںتاکہ بے لگام سرمایہ دارانہ نظام کی حرص پر قابو پا کر اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کو بچا لیا جائے۔

تازہ ترین