• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے عوام کے فیصلوں کی تعریف نہ کرنا جرم ہو گا۔ 11 مئی کو جو انتخابات کے نتائج سامنے آئے ہیں وہ عوام کی سمجھ بوجھ اور عقل و دانش کا واضح ثبوت ہیں کس خوبصورت طریقے سے انہوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے۔ ذرا سوچئے اگلے ڈیڑھ دو سال کیلئے ایک مضبوط اور مستحکم حکومت بن گئی ہے اور میاں نواز شریف سے بہتر کون وزیراعظم ہو سکتا تھا۔ ان پر سعودی حکومت کے بھی احسانات ہیں اور ہماری آزاد عدلیہ بھی ان کا خوب خیال رکھتی ہے۔ اب کیونکہ آصف زرداری کی پارٹی دوبارہ عوام کی حمایت حاصل نہیں کر سکتی تھی اور عمران خان کو ابھی حکومت چلانے اور مملکت کے امور کیلئے تجربہ چاہئے تھا تو میاں صاحب کا تجربہ اور ان کے تعلقات ہی سب سے بہترین آپشن تھا تاکہ اگلے دو سال کے اندر پُرسکون اور خیریت کے ساتھ امریکہ اپنا انتہائی حساس اور اربوں کھربوں ڈالر کا اسلحہ اور سامان جنگ پاکستان کے راستے واپس لے جائے۔ زرداری صاحب سب سے پہلا آپشن تھے مگر وہ اتنے بدنام ہو چکے تھے کہ ان کو طاقت میں برقرار رکھنا امریکی پلان میں سب سے بڑا رخنہ بن جاتا۔ میاں صاحب نے کچھ ہفتے پہلے سعودی عرب اور لندن کے دوروں میں جو بھی کام کی بات چیت کرنی تھی وہ کر لی اور پھر معاملات جنرل کیانی نے جان کیری اور نیٹو کے کمانڈروں کے ساتھ مکمل طور پر نپٹا لئے۔ اس مقصد کیلئے میاں صاحب کی واپسی پر تمام اعتراضات ختم ہوگئے۔ کراچی کو پُرامن رکھنے کے لئے متحدہ کو راضی رکھنا بھی ضروری سمجھا گیا سو سب کو سمجھا دیا گیا کہ متحدہ جو بھی کر لے اس کو نہ روکا جائے۔ اب اس پلان میں آزاد میڈیا نے کچھ رکاوٹیں ڈالیں مگر ان کو بڑے صبر کے ساتھ درگزر کردیا گیا اور الیکشن کمیشن کو وہ وڈیو فلمیں جن میں موٹر سائیکل پر بیلٹ پیپر کے بورے کے بورے لے جائے جا رہے تھے، بھی نظر نہ آئے۔ جب پوچھا گیا تو فرمایا کہ کسی نے شکایت ہی نہیں کی تو کوئی ایکشن کیسے کرتے پھر11 مئی کو 12 مئی کی یادیں بھی تازہ ہوئیں مگر فخرو بھائی کو آخر کراچی ہی میں رہنا ہے، سو متحدہ بھی خوش اور فخرو بھائی بھی۔ عمران خان کی سونامی واقعی ایک بڑا خطرہ بن سکتی تھی اور لاکھوں کے حساب سے ان کی پارٹی کو ووٹ مل گئے مگر اب انہیں خیبر پختونخوا میں حکومت چلانے کی ٹریننگ دی جائے گی اور ساتھ ہی مرکز میں اپوزیشن کرنے کی بھی۔ ان سب کاموں سے فارغ ہو کر جب 2014ء کے آخر میں امریکہ کی واپسی مکمل ہو چکی ہو گی پھر پاکستان اور وعدے وعید کرنے والے آزاد ہو جائیں گے۔ درمیان میں نواز شریف صاحب نے اگر اپنے وعدوں پر قائم رہنے کا ثبوت دیا تو پھر ان کی حکومت چلتی رہے گی اور IMF یا ورلڈ بینک سے قرضے وغیرہ بھی مل جائیں گے سو پاکستان بکھرنے سے بچ جائے گا اور عوام کو بھی چوری چکاری اور لوٹ مار سے نجات ملے گی۔ عمران خان کو موقع ملے گا کہ ایک یا دو صوبوں میں اپنی کارکردگی دکھائیں۔ باہر سے پیسے لائیں اور اچھے اچھے منصوبے بنا کر پورے کریں اور اگلے الیکشن میں حکومت میں آنے کی تیاری اور کوشش کریں۔ اگر ڈرون حملوں اور امریکی اسلحہ کی واپسی پر انہوں نے زیادہ شور نہیں مچایا تو وہ اس امتحان میں پورے اتر سکیں گے اور آگے کے راستے کھل جائیں گے۔ اس سارے منظر نامے میں پاکستانی عوام نے کس خوبصورتی سے رنگ بھرا ہے۔ مسئلہ صرف زرداری صاحب کا ہے کہ وہ اب دوبارہ صدر نہیں بن سکتے اور عدالتیں بھی اب کھل کر کھیل سکتی ہیں کیونکہ اب مرکزی حکومت ان کے فیصلوں اور احکام کی حکم عدولی نہیں کرے گی اور وہ تمام ادارے جیسے NAB یا FIA یا FBR زرداری صاحب کے تابع نہیں رہیں گے، نہ ہی ملک کے اٹارنی جنرل روز عدالت عالیہ کے ججوں کا کمرہ عدالت میں مذاق اڑائیں گے۔ تو صدر صاحب یا تو چوہدری فضل الٰہی بن کر یا رفیق تارڑ بن کر اسلام آباد میں بیٹھیں یا سمندر کے ساحل کے قریب پڑاؤ ڈال کر رکھیں ان کی بات پر اب کوئی توجہ نہیں دے گا۔ بہتر ہوگا کہ دل کے پرانے مرض کے چیک اپ کیلئے دبئی یا لندن جلد جائیں تاکہ غیر متوقع واقعات کی وجہ سے زیادہ دباؤ نہ پڑ جائے ان کے حواری اور دوست تو پہلے یہ چھٹیاں منانے گرمیوں میں باہر جاتے ہی ہیں۔
میاں نواز شریف نے آغاز تو اچھا کیا ہے کوشش کی ہے کہ سب کو کم از کم ایک دعوت تو دے ہی دیں اب اگر لوگ ان کی بات سن کر آگئے تو بہتر ورنہ ان کو کوئی دوش نہ دے۔ دو سال میں میاں شہباز شریف کو بھی ملک سے لوڈشیڈنگ کی لعنت ختم کرنے کا موقع مل جائے گا اور جس طرح ترکی کمپنیوں نے پنجاب میں میٹرو بس کا منصوبہ ایک سال سے کم کے عرصے میں پورا کر دیا اسی طرح وہ لوڈشیڈنگ پر بھی ترکی بہ ترکی حملے کر کے قابو پا لیں گے۔ وزیر بجلی اور تیل بن کر وہ سب سے زیادہ طاقتور اور امیر وزارتوں کے بادشاہ ہوں گے اور خزانہ کی وزارت بھی اسحاق ڈار صاحب کے ہوتے ہوئے گھر یعنی خاندان ہی میں رہے گی۔ تو لگتا ہے پاکستانی عوام کے اچھے دن آنے والے ہیں اور اگر کوئی گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی گئی تو عمران خان، شیخ رشید، جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی تو اسمبلی میں موجود ہی ہوں گے تاکہ وقت پر ایک مضبوط اور کنٹرول سے باہر میڈیا کو الرٹ کر دیا جائے یا پھر سوشل میڈیا پر PTI کے متوالے ہنگامہ کھڑا کر د یں۔ خود شہباز شریف بھی فیس بک اور ٹویٹر پر روز اس طرح کے پیغامات دیتے رہے ہیں۔ اپوزیشن میں رہ کر خود عمران خان کا قد کاٹھ بھی بڑھے گا اور ان کے بالکل نئے منتخب شدہ ممبروں کو موقع ملے گا کہ رموز حکومت سے آگاہ ہو جائیں۔ اس لئے 11مئی کے انتخابات ہر ایک کیلئے خوشی اور اطمینان کا پیغام لائے ہیں صرف تشویش چند ان لوگوں کو ہو گی جنہیں جلد ہی ریٹائر ہونا ہے اور ان میں صدر زرداری، جنرل کیانی اور چیف جسٹس چوہدری صاحب شامل ہیں۔ اب اگر نواز شریف نے زرداری صاحب کے پانچ سال سے کوئی سبق سیکھا ہو گا تو وہ کم از کم اگلے 6 مہینے چین اور سکون کے ساتھ سب کو شامل باجا کر کے گزار لیں۔ آخر زرداری نے تو سب کو کھلا پلا کر پال پوس کر اپنا پورا وقت اس طرح پورا کر لیا کہ سب دوبارہ اس حلوہ پوری کیلئے تڑپتے ہی رہیں گے۔ میاں صاحب نے اگر مٹھ بند رکھی تو شکایات بڑھیں گی مگر کم از کم 6 مہینے تو ہاتھ کھلا ہی رکھنا ہوگا حالانکہ ان کے پاس اسمبلی میں اتنے ممبر آگئے ہیں کہ کوئی انہیں بلیک میل نہیں کر سکے گا مگر وہ یہ سمجھ لیں کہ ہر آدمی کی ضروریات ہوتی ہیں اور اگر زرداری کے خلاف چوری چکاری کے مقدمات تیزی سے چلنا شروع ہو گئے تو پھر سندھ کارڈ دوبارہ میدان میں آسکتا ہے اور اب تو ٹپی صاحب بھی باقاعدہ میدان میں ہیں اور شاید وزیر اعلیٰ ہی بن جائیں تو پھر اگر عدالت نے پوچھا کہ یہ ٹپی کون ہے تو میاں صاحب بے بس ہونگے کیونکہ ٹپی ایک صوبے کے مالک ہوں گے۔ تو ذرا ہاتھ ہولا ہی بہتر ہوگا۔
تازہ ترین