• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ووٹ نے اپنا انتقام لے لیا۔ بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ صدر زرداری کی چالیں انہی پر الٹی پڑ گئیں۔ اُن کی ساری چالاکیاں کسی کام نہ آئیں۔ اتنی تو توقع نہ تھی جتنی بڑی سزا پی پی پی اور اس کے سابق اتحادیوں کو ملی۔ پی پی پی نہ صرف سندھ تک محدود ہو گئی بلکہ وہاں بھی کسی حد تک سکڑ گئی۔ نہ کوئی گیلانی رہا، نہ کوئی راجہ ، نہ کائرہ اور نہ ہی وٹو سب کے سب کو ووٹوں نے ملیہ میٹ کر دیا۔ جنوبی پنجاب سے متعلق پی پی پی کاغرور عوام نے خاک میں ملا دیا۔ اس سے بھی بُرا حال مسلم لیگ ق کے ساتھ ہوا۔ ایک ڈیڑھ سال زرداری صاحب کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے تو خوب لوٹے اور کرپشن کا بھی خوب دفاع کیا مگر ووٹ کی مار ق لیگ کو ایسی پڑی کہ قومی اسمبلی میں صرف ایک سیٹ جیت سکے۔عوامی نیشنل پارٹی کا حال اس سے بھی بُرا ہوا۔پانچ سال صوبائی وزارت اعلیٰ اپنے پاس رکھنے کے باوجود قومی اسمبلی میں صرف ایک نشست لی اور صوبہ پختون خواہ میں بھی صرف چند سیٹیں جیتی۔ اسفندیار ولی نے صدر زرداری سے گزشتہ پانچ سال خوب دوستی نبھائی مگر صوبہ کے عوام نے بے بچارے کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ایم کیو ایم کا تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، انہیں کوئی ہرا نہیں سکتا، ان کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں چاہے اُن کی کارگردگی کتنی ہی بُری کیوں نہ ہو ، چاہے کراچی جلتا رہے، چاہے وہاں لوگ مرتے رہیں۔ اس سب کا مظاہرہ کراچی کے عوام، میڈیا اور الیکشن کمیشن سب نے گیارہ مئی کو خوب دیکھا مگر پھر خاموشی بھی اختیار کر لی۔
ان سب پارٹیوں کا یہ واویلا کسی کام نہ آیاکہ وہ تو لبرل اور روشن خیال پارٹیاں ہیں جبکہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف طالبان کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ عوام نے تو ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں پر اعتماد کیا۔ ن لیگ کو تو توقع سے زیادہ مینڈیٹ ملا جس میں میری دانست کے مطابق شہباز شریف کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی نے اہم کردار ادا کیا۔ن لیگ کو وفاق اور پنجاب میں عوام نے واضع مینڈیٹ دیا جبکہ عمران خان کی تحریک انصاف پی پی پی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ عمران خان نہ صرف اپوزیشن لیڈر بننے کی پوزیشن میں آ گئے بلکہ اُن کی جماعت خیر پختون خواہ میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے ۔ اگر ہم گزشتہ پانچ سالوں کی گندی سیاست کو دہرانا نہیں چاہتے اور اس ملک کی بہتری کے خوائش مند ہیں تو مسلم لیگ ن پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوے خیبر پختون خواہ میں اپنے سب سے بڑے حریف تحریک انصاف کو صوبے میں حکومت بنانے کا موقع دے۔ میری اطلاع کے مطابق میاں نواز شریف صاحب کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اُن کی جماعت مولانا فضل الرحمن ، جماعت اسلامی اور دوسرے سیاسی دھڑوں کے ساتھ مل کرخیبر پختوخواہ میں حکومت بنائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ آئینی اور قانونی طور پر تو جائز ہو گا مگر اخلاقی طور پر ایسا کرنا نامناسب ہو گا۔ بلکہ میری نظر میں ایسا کرنا صوبے کے عوام کے مینڈیٹ کو چوری کرنے کے مترادف ہو گا۔امید کی جا سکتی ہے کہ میاں صاحب ایسے مشوروں پر عمل کرنے سے گریز کریں گے۔اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ معاملہ power corrupts and the absolute power corrupts absolutely والا ہو گا۔ پاکستان کے حق میں بھی یہی ہو گا کہ تحریک انصاف خیبر پختون خواہ میں حکومت بنائے جس سے ممکنہ طور پر پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک ایسی صورتحال سامنے آئے گی جہاں پنجاب میں شہباز شریف کی مثالی حکومت کا مقابلہ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی ایک بہترین حکومت سے ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ مثبت مقابلہ پاکستان اور عوام کے لیے بہت سود مند ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے میاں صاحب کو سیاسی وضع داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ن لیگ تحریک انصاف کو صوبے میں حکومت بنانے کی دعوت دے دے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ وفاق میں وزیر اعظم نواز شریف کو عمران خان کا بحیثیت اپوزیشن لیڈر سامنا ہو۔میاں صاحب پر عوام کا دباؤ ہو گا کہ وہ اُنکے مسائل کو حل کرنے میں فوری توجہ دیں، کرپشن کا خاتمہ کریں، بہترین طرز حکمرانی کا مظاہرہ کریں، دہشتگردی، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور غربت کا توڑ نکالیں۔ اُن سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ صدر زرداری کے طرز حکمرانی کے سائے سے بھی دور رہیں گے۔مگر عمران خان کا اپوزیشن لیڈر کے طور پر آئندہ پارلیمنٹ میں آنا سونے پر سہاگے کا کام دے گا۔اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حکومت کی خامیوں اور کمزوریوں کو بہترین طریقہ سے نشاندھی کرتے ہویے حکومت کو ہر ایسا کام کرنے سے روکیں گے جو پاکستان اور یہاں رہنے والوں کے مفاد میں نہ ہوگا۔
تازہ ترین