• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی ایک دفعہ پھر تاریخی فتح پر ماڈل ٹاؤن میں جمع کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے جو باتیں کیں اور جو لہجہ اختیار کیا وہ ایک سیاستدان نہیں ایک ایسے مدبر کا لب و لہجہ تھا جس کے کاندھوں پر عوام نے پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ وہ ایک مغرور اور متکبر فاتح کے طور پر خطاب نہیں کررہے تھے بلکہ ایک منکسرالمزاج شخص اور اللہ کے ایک عاجز بندے کی طرح اس کامیابی کو اپنے خدا کا کرم قرار دے رہے تھے اور خلق خدا کی خدمت کا عزم دہرارہے تھے۔ کارکنوں سے خطاب سے قبل نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا سے گفتگو کے دوران بعض دوسری شخصیتوں کے ساتھ میں بھی ان کے کمرے میں موجود تھا۔ مجھے اس شخص پر حیرت ہورہی تھی کہ اتنی بڑی کامیابی پر بھی وہ آپے سے باہر تو کیا نہایت سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ ان کے ماتھے پر غور و فکر کی گہری لکیریں نمایاں تھیں، یقینا ان کی نظروں میں پاکستان کا موجودہ نقشہ تھا اور اس کے ساتھ وہ خواب تھے جو نئے پاکستان کے حوالے سے وہ دیکھتے چلے آئے ہیں۔ شہباز شریف بھی یہاں بہت کمپوز ڈ نظر آرہے تھے تاہم اس کی کسر انہوں نے کارکنوں سے خطاب کے دوران پوری کردی۔ یہ شہباز شریف کا خودرو اسٹائل ہے اور یوں اس کے موجد اور خاتم بھی وہ خود ہی ہیں، مجھے ان کی ایک اور بات بہت اچھی لگی جب وہ اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں ہم لوگ میاں نواز شریف کے ساتھ موجود تھے تو انہوں نے آتے ہی میاں صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا۔ یہ خاندان ابھی تک مشرقی اقدار سے بندھا نظر آتا ہے۔
باقی رہا ہمارا میڈیا اور اس کی پیش گوئیاں، تو ان کا وہی حشر ہوا جوماضی کے تمام انتخابات میں ہوتا رہا ہے، اگر کوئی سچا نکلا اور حیرت انگیز طور پر اس کے اندازے درست ثابت ہوئے تو وہ ایک نوجوان غلام مصطفی ہے جو ایک ویب سائٹ (wwwpkpolitcs.com)چلاتا ہے۔ انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حاصل کردہ نشستوں کے حوالے سے اس کے سارے اندازے سو فیصد درست ثابت ہوئے۔ غلام مصطفی صاحب نے2008ء کے انتخابات میں بھی اپنی صحیح پیش گوئیوں سے حیران کیا تھا، بہرحال بات ہورہی تھی میڈیا کی، اگر مسلم لیگ(ن) کے ووٹر ان کی گفتگوؤں پر جاتے اور ان کی بتائی ہوئی صورتحال پر یقین کر بیٹھتے تو اپنے ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں ہی سے نہ نکلتے۔ میرے ان دوستوں نے جب پولنگ کی غیر معمولی شرح دیکھی تو یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ شرح عمران خاں کے حق میں جائے گی، اور اب جبکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو کر سامنے آگیا ہے ووٹوں کی غیر معمولی شرح عمران کی بجائے نواز کے حق میں گئی تو ایک دوست ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ دراصل مسلم لیگ کے جیتنے والے سبھی لوگ وہ تھے جو ہمیشہ جیتے ہیں حالانکہ یہElectableتو سب کے پاس تھے، ویسے بھی یہ موقف نتائج سامنے آنے سے پہلے ا پنایا جاسکتا تھا۔ کچھ اس قسم کا حال میرے ایک ”درویش“ کالم نگار دوست کا تھا جس نے کچھ عرصہ قبل اپنے کالم میں لکھا تھا”خدا کی قسم پی ٹی آئی کامیاب ہوچکی ہے“ اس نے الیکشن کے رزلٹس آنے تک اپنی اس قسم سے ”رجوع“ نہیں کیا۔
مسلم لیگ(ن) کے ووٹرز بھی اس دفعہ بہت ”میسنے“نکلے، اس کے برعکس پی ٹی آئی کے ورکر بہت ”بڑ بولے“ تھے۔ وہ ٹھیک صبح آٹھ بجے کالی عینکیں لگائے، پی ٹی آئی کے جھنڈے کی ٹی شرٹس پہنے اور ہاتھوں میں منرل واٹر کی بوتلیں تھامے پولنگ کی لائن میں آن کھڑے ہوئے۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعدVery hotکہتے تھے تاہم بھاگے نہیں، اپنی جگہ کھڑے رہے، ان کے پر جوش اجتمامات دیکھ کر لگتا تھا کہ ان کی حریف جماعت کا دور دور تک کہیں وجود نہیں لیکن ان کی اس حریف جماعت کے”میسنے“ووٹر خاموشی سے گھروں سے نکلے،خاموشی سے قطار میں کھڑے رہے اور خاموشی سے”شیر“ پر مہر لگا کر گھروں کو لوٹ گئے چنانچہ جب نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ عمران خاں جس”سونامی“ کی تباہی و بربادی کا بار بار ذکر کرتے تھے اس حوالے سے ان کا اشارہ اپنی جماعت کی طرف تھا۔ یہ جماعت واقعی سونامی کے تباہ کن طوفان کی زد میں آگئی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو۔ میری یہ خواہش پوری ہوتی ہے کہ نہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ اپنے آرام دہ گھروں سے یہ لوگ پہلی دفعہ ووٹ ڈالنے کے لئے نکلے تھے انہوں نے اس”جنگ“ میں اپنی پوری”فورس“ جھونک دی تھی۔ اب اللہ جانے ووٹ ڈالنے کے”گناہ بے لذت“ کا ارتکاب وہ دوبارہ کرنے کا سوچیں گے بھی کہ نہیں؟
سچی بات پوچھیں تو مجھے پی پی پی پی کے اجڑنے کا بھی بہت افسوس ہے دراصل پہلی دفعہ صدر آصف علی زرداری غلط سیاسی چال چل بیٹھے۔ ان کا خیال تھا کہ نواز شریف کی پارٹی میں عمران خان اتنا ڈینٹ ڈال دیں گے کہ خود انہیں کچھ کرنا ہی نہیں پڑے گا چنانچہ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے ۔بس دامے، درمے سخنے ان کی مدد کرتے رہے، مگر عمران خان اپنے بلے سے مسلم لیگ کو پھینٹی بھی نہیں لگا سکے اور پی پی پی کی اپنی پانچ سالہ ”کارکردگی“ بھی ”ماشاء اللہ“ ہی تھی چنانچہ جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر نواز شریف کو اب جاگنا ہوگا اور لوگوں کو جگائے رکھنا ہوگا۔ نواز شریف کو ورثے میں صرف خطرات ملے ہیں، ان خطرات سے وہ ملک کو کیسے نکالتے ہیں یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اس مقصد میں کامیاب و کامران کرے۔عمران خان سیڑھی سے گرے تو ہسپتال کے بستر پر پڑے پڑے انہوں نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا اور اس کے بعد بستر ہی سے اسلام آباد کے جلسے سے خطاب بھی کیا مگر انتخابات کی سیڑھی سے گرے انہیں کئی گھنٹے گزر گئے ہیں مگر انہوں نے عوام کو منہ دکھایا اور نہ اپنی حریف جماعت کو مبارکباد کے دو حرف کہے۔ سیاستدان تو وہ تھے ہی نہیں، افسوس وہ سپورٹس مین بھی ثابت نہیں ہوئے۔
تازہ ترین