• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی (NAC)نے حال ہی میں اپنے اجلاس میں 2013ء کیلئے ملکی جی ڈی پی گروتھ کے 4.37% ہدف کو کم کرکے 3.59%کیا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ میں کمی کی وجہ ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ بتائی گئی ہے۔ 2013ء میں گیس کی سپلائی میں 2.73% کے ہدف میں اضافے کے بجائے 3.2%کمی ہوئی ہے جس نے صنعتی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان گزشتہ 5 سالوں سے جی ڈی پی گروتھ کے ہدف حاصل نہیں کر پا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ مختلف سیکٹرز کا اگر جائزہ لیں تو زرعی شعبے نے 3.35%، صنعتی شعبے نے 3.49% اور سروس سیکٹر نے 3.71%گروتھ کی ہے۔ زرعی شعبے میں گیہوں، کپاس، گنا، چاول اور مکئی کی اچھی فصلیں ہوئی ہیں۔ NAC کے مطابق اس سال گیہوں کی پیداوار 24.23 ملین ٹن اور چاول کی61.8 ملین ٹن پیداوار متوقع ہے جبکہ اس سا ل لائیو اسٹاک سیکٹر نے بھی 3.6% گروتھ کی ہے۔ صنعتی شعبے کی اس سال کی کارکردگی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ، امن و امان کی ناقص صورتحال ، سیاسی عدم استحکام اور ہڑتالوں سے متاثر ہوئی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق انرجی بحران کی وجہ سے ملکی جی ڈی پی گروتھ میں سالانہ تقریباً 2% کمی ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود اس سال بڑے درجے کی صنعتوں نے 2.83% اور چھوٹے درجے کی صنعتوں نے 8.23% گروتھ حاصل کی ہے جبکہ ہول سیل اور ریٹیل نے 2.5%، مواصلات نے 3.44%، ہاؤسنگ سیکٹر نے 3.99% اور نجی شعبے کی دیگر سروس سیکٹرز نے 3.99% گروتھ حاصل کی ہے۔ رواں مالی سال کے آخر تک ملک میں افراط زر کی شرح کا تخمینہ 9% لگایا گیا ہے۔ ملک میں صنعتی گروتھ کیلئے اسٹیٹ بینک کو اپنے ڈسکاؤنٹ ریٹ میں مزید کمی کرنا ہوگی تاکہ بینکوں کے لینڈنگ ریٹس کم ہوں اور نجی شعبہ سرمایہ کاری کی طرف راغب ہو تاکہ ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوسکیں۔
حال ہی میں مجھے فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بینکنگ کریڈٹ اینڈ فنانس کا چیئرمین نامزد کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی موصول ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال بینکوں سے پرائیویٹ سیکٹر کے قرضوں میں 50% کمی ہوئی ہے جو گزشتہ مالی سال کے237/ارب روپے کے مقابلے میں رواں مالی سال 19/اپریل 2013ء تک 119/ارب روپے رہ گئے ہیں جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ نجی شعبہ ملکی حالات کے پیش نظر سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ رپورٹ کے مطابق خسارے میں چلنے والے اداروں کیلئے حکومت کی جانب سے لئے گئے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے اور واپڈا قابل ذکر ہیں اور حکومت کی پاور سیکٹر کی سبسڈی اپنے 185/ارب روپے کے تخمینے سے بڑھ کر 345/ارب روپے تک پہنچ گئی ہے جس سے بجٹ خسارے میں کافی اضافہ ہوا ہے جو ایک لمحہٴ فکریہ ہے۔
میں زیادہ تر ملکی معاشی امور پر گزشتہ 13 سالوں سے جنگ اخبار میں غیر سیاسی اور غیر متنازع کالم لکھتا آرہا ہوں اور میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ میرے کالم میرٹ اور حقائق پر مبنی ہوں لیکن پاکستان خصوصاً کراچی کے موجودہ ابتر حالات دیکھتے ہوئے آج میرا قلم مجھے مجبور کررہا ہے کہ میں ان حالات پر قارئین سے اپنے خیالات شیئر کروں۔ انتخابات سے قبل بم دھماکوں اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے دیگر واقعات کی میں شدید مذمت کرتا ہوں لیکن اس دوران ہڑتالوں میں صنعت و تجارت، ٹرانسپورٹ اور تعلیمی اداروں کا بند کرنا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ملک میں امن و امان کی ابتر صورتحال کے پیش نظر فیڈریشن آف پاکستان، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر زبیر ملک نے گزشتہ ہفتے پاکستان کی صنعتی و تجارتی تنظیموں اور چیمبرز کے نمائندوں کا ایک ہنگامی اجلاس کراچی میں طلب کیا تھا جس میں انہوں نے مجھے خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی تھی۔ اجلاس میں بڑی تعداد میں بزنس لیڈرز نے شرکت کی۔میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ہماری معیشت پہلے ہی تباہی کا شکار ہے، غیر ملکی خریدار امن و امان کی ابتر صورتحال کے باعث پاکستان نہیں آرہے، بیرونی سرمایہ کاری ختم ہوچکی ہے، ہڑتالوں کے باعث بیرونی آرڈرز کی وقت پر شپمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی منڈیوں میں ہماری ساکھ خراب ہورہی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ایکسپورٹ آرڈرز خطے میں ہمارے مقابلاتی حریفوں کو منتقل ہورہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے صنعت کا پہیہ پہلے ہی بیٹھ گیا ہے، اب ہڑتالوں کے باعث صنعتی سرگرمیاں معطل ہونے سے صنعت کار سخت پریشان ہیں اور ان کیلئے بینکوں کے قرضوں کے مارک اپ کی ادائیگی کرنا مشکل ہورہا ہے جس کی وجہ سے بینکوں میں نادہندگان کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ میں نے فیڈریشن کے صدر سے درخواست کی کہ وہ غیر اعلانیہ اور بلاجواز ہڑتالوں کے باعث صنعتوں کو ہڑتالوں والے دن بینکوں کے چارج کئے جانے والے مارک اپ میں رعایت کیلئے حکومت سے بات کریں۔ ایکسپورٹ آرڈرز کی وقت پر شپمنٹ نہ کئے جانے کی وجہ سے بیرونی خریدار اشیاء کو ہوائی جہاز کے ذریعے بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں جو بہت مہنگا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے آرڈرز میں منافع کے بجائے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ کاروباری حلقے میں مجبوری کی حالت میں جہاز کے ذریعے ایکسپورٹ کو بددعا سمجھا جاتا ہے۔ میں خود ایک صنعت کار ہوں، میرے کئی ٹیکسٹائل ملز ہیں اور مجھے صنعت کاروں کی ان مشکلات کا بخوبی احساس ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں انتخابات کے پیش نظر بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، یارن اور فیبرک سے لوڈڈ گاڑیوں کی چوریاں بے انتہا بڑھ گئی ہیں اور ان حالات میں صنعتوں کا چلانا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے میرا ڈینم فیبرک سے بھرا ہوا اپنا ٹرک نیٹی جیٹی پل پر گن پوائنٹ پر دن دہاڑے لوٹ لیا گیا۔ ڈی آئی جی، ایس ایس پی، ایس پی ویسٹ، CPLC کے احمد چنائے اور مشیر داخلہ شرف الدین میمن کی سطح پر بات چیت کرنے اور ڈاکس تھانے میں ایف آئی آر کٹوانے کے باوجود بھی لاکھوں روپے کی مالیت کا ڈینم فیبرک دستیاب نہ کیا جاسکا۔ آج کل صنعت کاروں کو ایک اور اہم مسئلہ درپیش ہے کہ صنعت کاروں کے بچوں کو تصدیق شدہ ٹیلیفون نمبرز سے بھتے کیلئے فون کالز آرہی ہیں جن میں دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر رقم نہ دی گئی تو انہیں مار دیا جائے گا۔ میں نے فیڈریشن کے صدر سے کہا کہ بھتہ وصولی کی شکایتوں کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کے ساتھ فیڈریشن میں ایک ایسا سیل بنایا جائے جہاں دھمکی آمیز ٹیلیفون کالز کی تصدیق اور فون کالز کرنے والوں تک رسائی کیلئے سہولتیں میسر ہوں تاکہ بزنس کمیونٹی اور ان کے اہل خانہ کو بھتہ مافیا اور اغوا کرنے والوں سے نجات دلائی جا سکے۔ میں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں امن و امان قائم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے لیکن اکثر یہ دیکھا ہے کہ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان اور مدرسوں کے طلباء ہڑتال کامیاب بنانے کیلئے تجارتی مارکیٹوں اور صنعتی علاقوں کے راستوں پر ٹائر جلا کر رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں جس کے باعث تجارتی مارکیٹوں اور صنعتی علاقوں میں کام کرنے والے محنت کش واپس اپنے گھر جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اس طرح کے لوگوں کے خلاف کارروائی کریں لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہڑتال کے اعلان کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو من مانی کرنے کیلئے فری ہینڈ دے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ہڑتالیں تو کامیاب ہوجاتی ہیں لیکن کاروباری و صنعتی سرگرمیوں کا پہیہ جام ہو جاتا ہے جبکہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے گھروں کے چولہے بھی بند ہوجاتے ہیں۔ میں حالیہ بم دھماکوں اور دہشت گردی کی سخت مذمت کرتے ہوئے سیاسی و مذہبی جماعتوں اور عوام سے درخواست کروں گا کہ ہمیں ترقی یافتہ مہذب ممالک کی طرح ملک کے مفاد میں اپنے احتجاج کے طریقہ کار کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ ہماری معیشت جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اب مزید نقصانات کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
تازہ ترین