• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لیجئے … چھیاسٹھ سال بعد خاکی اور سفید اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے مکمل آزاد اور خود مختار الیکشن حاضر ہے۔ جیتنے والوں کو کھلی مبارکباد۔ ہارنے والوں کے لئے صرف اتنا کہ وہ اسے عوام کی رضا سمجھ کر قبول کریں لیکن جو لوگ ایسا حوصلہ نہیں کر سکتے وہ الیکشن پٹیشن ڈال کر اگلے الیکشن کا انتظار کریں۔ یہ میرا مشورہ نہیں بلکہ پاکستان کے آئین کا مشورہ ہے۔ قانونی راستوں کے علاوہ سب کو چاہئے کہ وہ الیکشن کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔
قوم نے جس بے جگری سے گرمی اور خوف کی پروا کئے بغیر پورا دن لگا کر ووٹ ڈالا اسے ڈبل مبارکباد یعنی شاباش اور مبارکباد دونوں۔ انگریزی میں کہتے ہیں ” شکست کا کوئی باپ نہیں ہوتا لیکن فتح کے بہت سارے باپ ہوتے ہیں“۔ یہ محاورہ اپنی جگہ درست لیکن ہر کامیابی ی طرح ہر شکست کے کچھ اسباب بھی ہوتے ہیں۔ لٹریچر کے ذریعے فلسفہ اور منطق پھیلانے والوں نے اسے دو طرح سے بیان کیا ہے، اس ادبی تبلیغ کا پہلا انداز یہ ہے :۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس کا دوسرا پہلو شاعرِ مشرق نے دُنیا کو سمجھایا۔ جو خود عملی سیاست، آزادی کی ریاضت اور دُنیا کی پہلی مسلم قومی مزاحمت کی لافانی تحریک کا حصّہ رہے۔ اقبال نے کہا:۔
دل کی آزادی شہنشاہی اور شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا، تیرے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم؟
حالیہ الیکشن میں بندگانِ شکم کے لئے عبرت اور حسرت کا خوفناک سبق ہے۔ جنہوں نے اختیار اور اقتدار کے ذریعے صرف شکم پُری کی جبکہ جواباً عوام نے ان کے لئے پولنگ کے دوران زبانی خانہ پری کی اور ووٹ کا ٹھپہ کہیں اور لگایا لیکن وہ جنہوں نے ساتھ ساتھ دل کی دنیا بھی آباد رکھی، اُنہیں ووٹروں نے دلگیر نہیں ہونے دیا۔ چاہے وہ سیاسی پارٹیاں ہوں یا آزاد اُمیدوار ہوں اور علاقائی یا مذہبی جماعتیں۔ اسی لئے آج کے دن بطنِ عزیز کی خدمت کرنے والے مقامِ عبرت پر پہنچے ہیں اور کچھ وطنِ عزیز کا خیال کرنے والے پھر مقامِ خدمت پر نظر آ رہے ہیں۔
ذرا میرے ساتھ ڈھائی سال پیچھے چلئے۔ اقتدار کا سب سے بڑا کمرہ، سب سے بڑی پارٹی اور سب سے بڑے مقتدر بیٹھے ہیں۔ مجھے تجزیئے کے لئے کہا گیا تو میں نے کھل کر کہا کہ پیپلز پارٹی کا خمیر مزاحمت سے اُٹھا ہے مصلحت سے نہیں۔ مزاحمت غریب عوام کی مسلسل جنگ کا نام ہے۔ غربت کے خلاف سرمایہ داری، جاگیر داری اور چور بازاری کے خلاف۔ جب تک غریب کی جھگی، کچی بستیاں ا ور گھروندہ، تہذیب اور ترقی کے نئے دور میں داخل نہیں ہوجاتا یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ عوامی مزاحمت کرنے والی فیڈریشن کی سب سے بڑی جماعت ڈرائنگ رُوم میں کسی مفاہمتی فارمولے کے زور پر طاقتور نہیں بن سکتی اور نہ ہی یہ اسٹیبلشمنٹ کی بیوہ کا کردار ادا کر سکتی ہے۔
وہی ہوا جو ایسے موقعوں پر ہوتا ہے۔ اگلے دن جب میں اسمبلی پہنچا تو اپوزیشن لیڈر سے ملاقات ہوئی جن کا آبائی گاؤں میرا سسرال ہے، اُنہوں نے مجھے گپ شپ کے دوران کہا ”واچ یور بیک“… اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے اکثر لوگوں کے کان نہیں ہوتے۔ ان کے دو عدد کانوں کی جگہ دو عدد ریسیور لگے ہوتے ہیں۔ ایک کان کی جگہ خوشامد سُننے والا ریسیور اور دوسرے کان کی جگہ چُغل خوری کا عادی ریسیور نصب ہوتا ہے۔ جس کے راستے آدھی چُغل خوری ایک سول انٹیلی جنس ایجنسی کرتی ہے اور آدھی وہ لوگ جو راج دربار کے مسخرے ، پھکڑ لطیفے سُنانے اور صاحب کے اُٹھنے پر اُٹھ جانے والے۔ مسکرانے پر قہقہے لگانے والے اور سنجیدگی پر رو پڑنے والے کل وقتی مگر مہمان اداکار شامل ہوتے ہیں۔ آج مجھے یہ دیکھ کر دُکھ ہوا کہ پنجاب کے کلچر، پنجابی روایت اور سیاست کو سمجھے بغیر جن چُغل خوروں نے قلعہ نما ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر (electables) یعنی قابلِ انتخاب لوگوں کو الیکشن مہم سونپی تھی۔ اُس کا نتیجہ ندیم افضل چن، امتیاز صفدر وڑائچ، نوید چوہدری، طارق انیس ایڈوکیٹ، چوہدری منظور احمد اور راجہ ریاض جیسے بے شمار کارکنوں کو بھی گناہِ بے لذت کی طرح بھگتنا پڑا۔ جسے یقین نہ آئے وہ پنجاب اور کے پی کے سے آنے والے حلقہ وار نتائج، ووٹروں کی تعداد اور امیدوار کے نمبر سمیت انٹرنیٹ پر پڑھ لے۔ میں یقین سے کہتا ہوں یہ جیالوں کی شکست نہیں بلکہ کارکنوں کو نظر انداز اور ناراض کرنے والوں کا احتساب ہے۔
اس سے زیادہ ستم ظریفی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ مسخرے کردار جنہیں اپنے آبائی علاقوں میں کبھی کونسلر کا الیکشن لڑنے کا اتفاق بھی نہیں ہوا۔ ایسے غیر سیاسی امیر زادوں کو پنجاب کے دارالحکومت اور وفاقی دارالحکومت جیسی کئی اہم سیٹوں پر قومی اسمبلی کے لئے میدان میں اُتارا گیا۔ گزشتہ روز جنگ اور نیوز کے پُختہ کار رپورٹرز جاوید فاروقی اور عاصم یاسین کی رپورٹیں منفرد اور آنکھیں کھول دینے والی ہیں۔ پنجاب کے نتائج پر تبصرے سے پہلے اس حقیقت کو کون بھول سکتا ہے کہ اس الیکشن میں تین سابق وزرائے اعظم کو بھرپور اور مفصل شکست ہوئی۔ جن میں سے دو وزیرِ اعظم پنجابی تھے۔ اُنہیں شہید بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سے زیادہ طویل اور کسی تعطل کے بغیر بلا شرکتِ غیرے پانچ سال کا اقتدار ملا۔ شہید بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جب بھی الیکشن ہار کر وزیرِ اعظم ہاؤس سے نکلے تو انہوں نے اپنا الیکشن جیتا ۔ پھر وہ اپوزیشن لیڈر بن کر ہمیشہ پرائم منسٹر ان ویٹنگ کا کردار ادا کرتے رہے بلکہ دو دو مرتبہ پرائم منسٹر بن کر دکھایا۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ یہ دو پنجابی وزرائے اعظم ایک عدد پنجابی وزیرِ اعلیٰ کے مقابلے میں الیکشن کے دن کیوں چاروں شانے چت ہو کر ڈھیر ہو گئے؟ اس سوال کا جواب ہمیں جمشید دستی کے” کیس اسٹڈی“ سے ملتا ہے۔ جمشید دستی اول و آخر جیالا، سرمایہ داری، جاگیرداری اور چور بازاری کے خلاف چلتا پھرتا ایک ایسا اشتہار ہے جسے ملک کے سارے بڑوں نے حسبِ توفیق رگڑا دیا مگر اس نے نااہلی کے بعد ضمنی الیکشن میں ایک سیٹ اور گرفتاری کے بعد ضمنی الیکشن میں تنِ تنہا دو سیٹیں جیت کر یہ ثابت کر دیا کہ پنجاب کا جیالا ووٹر سیاست میں للکار اور جرأتِ انکار کے ساتھ ہے۔شہید قائدِ عوام نے اسے جرأتِ اظہار سے ہم آہنگ کر کے سیاست کا بنیادی ماڈل بنا دیا اور پھر لاہور سمیت پنجاب کے ہر شہر سے جیت کر یہ ثابت بھی کیا کہ پنجاب میں جیتنے کے لئے بطنِ عزیز کی بجائے وطنِ عزیز پر توجہ دینا ضروری ہے۔
میں آج بھی یہ بات کھل کر دہرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی فیڈریشن کی سب سے بڑی سیاسی تحریک ہے۔ موجودہ الیکشن میں اس کی سب سے بڑی ناکامی کی وجہ کنونشن لیگی ماڈل سیاست پر عمل کرنا ہے۔ جس کے اجزائے ترکیبی میں سازشی تھیوری، بے رحمانہ سودے بازی، ذلت آمیز مصلحت اور بدبو دار سرمائے کے بل پر آگے آنے والے نو دولتئے مافیاز شامل ہیں جو غریب عوام کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں۔ جن دنوں کوئی وفاقی وزیر گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا میں پورے پاکستان کی بار ایسوسی ایشنوں میں گیا، جن میں کراچی بار ایسوسی ایشن جس کی آبادی ایک ضلع جتنی ہے، بھی شامل ہے۔ ہرجگہ وکیل ہی باہر نہیں نکلے، جیالے ڈھول بجاتے نعرے لگاتے میلوں تک نکلتے آئے۔ ہر پارٹی میں کچھ لوگوں کو تو خطرہ ہو سکتا ہے لیکن خطرے سے ڈرانے والا طبلچی ساتھ رکھ کر کوئی سیاسی پارٹی تو کیا کام کرے گی؟ کوئی ٹی پارٹی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ پنجاب میں فیڈریشن کی سب سے بڑی پارٹی کے لیڈروں کو خطرہ تھا تو کیا اس خطرے کے باعث الیکشن سے پہلے بند کمرے میں ہونے والی CEC اور فیڈرل کونسل بھی نہ بلائی جا سکی؟ ضروری ہے کہ لیاری، لیاقت باغ ، موچی دروازے، گنڈا پور پارک، لسبیلہ کی پارٹی تہہ خانوں سے نکل کر بالا خانوں اور کھلیانوں میں چلی جائے۔ ایک ہفتہ کے پارلیمانی اور تنظیمی کھلے اجلاس میں حالات کا تجزیہ کیا جائے۔ پی پی پی اگر اپنے پہلے منشور اور بنیادی دستاویز کی طرف واپس آجائے تو اس کا عروج ساتھ لوٹ آئے گا۔ جنہوں نے یہ دستاویز نہ پڑھی ہو وہ اسے بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کی کتاب جہدِ مسلسل کے صفحہ نمبر129 پر ضمیمہ نمبر پانچ میں دیکھیں یا دو روزہ پیپلز کنونشن منعقدہ 28-29 مئی 1966ء میں پیش کردہ رپورٹ پڑھ لیں۔ آذر عسکری نے کیا خوب کہا ہے:۔
خوشامد زمانے کی وہ فیلسوف
بنائے جو ذی عقل کو بے وقوف
تازہ ترین