• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی منیب الرحمٰن صاحب نہ صرف بڑے عالم دین ہیں بلکہ عمدہ لکھاری بھی ہیں ،اِس بات کا ثبوت اُن کے کالم ہیں جن میں شگفتگی بھی ہوتی ہے اور طنز کی کاٹ بھی ، غالب جیسے ’آدھے مسلمان ‘ کو بھی ’کوٹ ‘ کرتے ہیں اور فیض جیسے ’کمیونسٹ ‘ کو بھی ، کالم میں حسب ضرورت شگوفے بھی بکھیرتے ہیں اور حسب توفیق پھبتیاں بھی کستے ہیں۔ 

بہت کم لوگوں کو اِس بات کا علم ہوگا کہ آج سے چودہ سال پہلے جب میں نے ’جنگ ‘ میں کالم لکھنا شروع کیا تو پہلا کالم ہی مفتی صاحب کی مدح میں لکھا تھا۔

آج مفتی صاحب کی یاد اِس لیے آئی کہ گزشتہ روز انہوں نے فدوی کی گوشمالی فرماتے ہوئے ایک کالم باندھاجس میں انہوں نے خاکسار کے مورخہ 22نومبر کے کالم ’’بغیر نکا ح کے ۔۔۔توبہ توبہ ‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ’’ ہمارا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا آپ کی نظر میں حلال وحرام کے پیمانے بدل چکے ہیں، کیا العیاذ باللّٰہ کوئی نئی شریعت نازل ہوگئی ہے جو آپ تک پہنچ گئی ہے، مگر ہمیں اس کی خبر نہ ہوئی۔ 

اگر کسی اور کی بیٹی یا بہن اجنبی مرد کے ساتھ کسی ہوٹل میں رنگ رلیاں منائے تو ہمیں اس کا جشن منانا چاہیے۔۔۔‘‘مفتی صاحب بزرگ ہیں ، کچھ بھی کہہ سکتے ہیں،بقول غالب، آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا۔تاہم اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے دلیل مانگی ہے ، تو دلیل حاضر ہے۔

فدوی کے جس کالم کا مفتی صاحب نے حوالہ دیاہے اُس میں فدوی نے متحدہ عرب امارات سے متعلق ایک خبر پہنچائی تھی کہ امارات نے اپنے قوانین میں ترمیم کرکے شراب پر پابندی غیر موثر کرنے کے علاوہ غیر مرد اور عورت کو بغیر نکاح کے اکٹھے رہنے کی اجازت دے دی ہے۔ 

اس کالم میں یہ جملہ میں نے لکھا تھا کہ ’’ہو سکتا ہے کبھی کوئی لبرل قسم کا عالم دین کھینچ تان کر کہیں سے شراب کی گنجائش پیدا کر لے مگر نا محرم مرد اور عورت کا بغیر نکاح کے اکٹھے رہنا کہیں سے بھی اسلامی قوانین یا شریعت کے مطابق نہیں۔۔۔ ‘‘اِس سے آگے کیا بات رہ جاتی ہے ؟میں نے کہاں لکھا کہ حلال حرام کے پیمانے بدل گئے ہیں ؟

میں نے تو صرف اطلاع دی کہ امارات میں یہ ہو گیا ہے لیکن انگریزی محاورے shooting the messenger کے مصداق مفتی صاحب نے یوں جانا کہ گویا امارات میں یہ قانونی ترمیم فدوی نے کروائی ہے۔

مفتی صاحب خود لکھتے ہیں کہ ’اگر دنیا میں کہیں مذہب اپنی اصل شکل میں نافذ نہیں ہے یا جس قدر تھا، اس کی بھی بساط لپیٹی جارہی ہے، تو ہمیں اس کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے‘ ۔۔۔۔بالکل درست ۔۔۔ تو پھر صدائے احتجاج بلند کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ایک احتجاجی مراسلہ امارات کے سفارت خانے کو بھجواتے جس میں اُن سے پوچھتے کہ یہ کون سا اسلام آپ نافذ کرنے جا رہے ہیں ، کس شریعت کی رُو سے آپ نے یہ مرد و زن کو بغیر نکاح کے رہنے کی اجازت دی ہے ؟۔ 

مگر بوجوہ یہ کام شاید مفتی صاحب کے لیے ممکن نہیں تھا اِس لیے روئے سخن فدوی کی جانب کر لیا۔ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے !

مفتی صاحب نے فدوی کو لبرل کا لقب نما طعنہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’وقت کا دھارا آپ کے ساتھ ہے ، زمانہ آپ کا طرفدار ہے ، پھر بھی آپ کو تسکین نہیں ہوتی ۔۔۔‘‘مگر آگے چل کر خود ہی یہ اطلاع بھی دی کہ ’’علامہ خادم حسین رضوی نے (آ پ جیسے) ترقی پسند اور روشن خیال لوگوں کے ہوتے ہوئے اللّٰہ کی اتنی مخلوق کو اپنا ہمنوا کیسے بنا لیا۔۔۔؟‘‘

بہت احترام کے ساتھ مفتی صاحب ، یہ دونوں متضاد باتیں ہیں ، اسے نفسیات کی زبان میں Cognitive Dissonanceکہتے ہیں، آپ کے اور میرے پسندیدہ غالب نے اِس بارے میں کہاتھا ’’سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ِ ہستی ، عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا‘‘۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے ایسے کسی ’لبرل ازم‘ کا جھنڈا نہیں اٹھا یا جس کے نزدیک محض شراب ، جوا اور زنا کی اجازت ہی لبرل ازم ہے ۔

 جس طبقے کا مفتی صاحب مجھے امام بنانے پر مصر ہیں اُس طبقے کے ساتھ میرا کوئی لینا دینا نہیں ، یہ وہ طبقہ ہے جو رات کو شرا ب پیتا ہے اور دن میں مزدوروں کا خون چوستا ہے، ایسے لوگوں کو معاشرہ محض اُن کے ظاہری اطوار اور رنگ ڈھنگ کی وجہ سے لبرل سمجھتاہے حالانکہ اُن سے زیادہ رجعت پسند کوئی نہیں۔ 

تاہم اگر حقیقی لبرل لوگوں کے اثر و رسوخ کا اندازہ لگانا ہو تو عورت مارچ کا خادم حسین رضوی کے جنازے سے تقابل کرکے دیکھ لیں ، پتا چل جائے گا کہ زمانہ کس کا طرفدار ہے !قابل احترام مفتی صاحب نے جمہوریت کا حوالہ بھی دیا تو یہ سوال تو میرا بھی ہے کہ اگر کوئی شخص مخالف نقطہ نظر کا اظہار کرے تو اُسے نام نہاد لبرل اور ’روغن خیال ‘ کہہ کر بحث کو ’ادھر تم ، ادھر ہم ‘ کا رُخ دینا کیامناسب بات ہے ؟

اور اِس بات کی تو مجھے سمجھ ہی نہیں آئی کہ اختلاف رائے پر میں مخالف کی آواز دبانے کا حامی ہوں۔یہ کب ہوا ؟؟؟مفتی صاحب اپنے لیے تو گنجائش کے طلب گار ہیں مگر فدوی کو غالب جتنی رعایت دینے کے لیے بھی تیار نہیں ’’گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں، کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی ۔‘‘

مفتی صاحب نے سوال کیا ہے کہ ’’یہ کہاں سے لازم آیا کہ برسر عا م شراب نوشی اور نامحرم لڑکے لڑکیوں کا اختلاط اور ساتھ رہنا مادی ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔۔‘‘ میں نے یہ بات لکھی اور نہ میری یہ دلیل ہے۔ 

مفتی صاحب کو یہ سوال تو امارات کے حکمرانوں سے پوچھنا چاہیے ، انہوں نے الٹا مجھ سے سوال کر ڈالا۔پاکستان میں نکاح کے بغیر ساتھ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ کچھ لوگ تو نکاح کرکے بھی ساتھ نہیں رہنا چاہتے!مفتی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ تصویر اور آلہ متکبر الصوت کے استعارے گھس پٹ چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر وہ فتاویٰ درست تھے تو آج مفتی صاحب اُن پر عمل کیوں نہیں کرتے /کرواتے اور اگر درست نہیں تھے تو اِس بات کی کیا ضمانت کہ جس چیز کو آج خلاف مذہب قرار دیا جا رہا ہے کل کو یہی علما اسے جائز قرار نہیں دیں گے ؟

 وما علینا الا البلاغ المبین (اور نہیں ہے ہم پر کوئی اور ذمہ داری ، سوائے (اللّٰہ کا پیغام ) صاف صاف پہنچا دینے کے۔‘‘(القران، 36/17)۔

تازہ ترین