• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنگلہ دیش کے محصور ین کیمپوں میں پھنسے میرے ڈھائی لاکھ سے زائد بچو۔ مجھے یقین ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کے 49سال مکمل ہونے کے بعد بھی تم سب میری جانب اسی امید اور تڑپ سے دیکھ رہے ہو گے جیسے ایک ماں سے بچھڑے ہوئے بچے ماں سے ملنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ میرے بچو مجھے معلوم ہے کہ تم سب نے یہ 49 سال کس تکلیف اور کرب میں گزارے ہیں؟ مجھے معلوم ہے کہ تم جانتے ہو کہ میں ایک ایٹمی ریاست بن کے دنیا بھر میں رعب و دبدبے کی علامت بن چکی ہوں۔ 

تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ میں نے ہی اپنی طاقت سے روس کے کئی ٹکڑے کر کے اسے افغانستان سے نکل جانے پر مجبور کیا، تم جانتے ہو گے کہ گزشتہ ڈھائی سالوں سے مجھے ریاستِ مدینہ میں تبدیل کرنے کے نعرے لگائے جا رہے ہیں اور ریاستِ مدینہ کے نعروں کے سبب تمہاری امیدیں بھی اپنی ماں جیسی ریاست سے بڑھ چکی ہوں گی کہ اب میں تم سب کو اپنے پاس ضرور بلا لوں گی لیکن میرے بچو، میں تم سب سے شرمندہ ہوں کہ تم سب اپنی ماں جیسی ریاست کے لیے آج تک قربانیاں دے رہے ہو، آج تک اپنے آپ کو پاکستانی کہلواتے ہو، کئی مرتبہ بنگلہ دیش کی شہریت قبول کرنے کی پیشکشوں کو ٹھکراتے ہوئے تم سب نے پاکستانی کہلوانے پر فخر محسوس کیا اور محصورین کیمپ میں رہنے کو ترجیح دی، میرے بچو میں شرمندہ ہوں کہ تم نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں جو قربانیاں دی ہیں‘ تمہاری ماں جیسی ریاست ان کے بدلے تمہیں اپنا نام بھی نہیں دے سکی۔ 

میرے محصورین بچو آج میں تمہیں اپنی مجبوری اور چند اہم ترین بنیادی ذمہ داریوں کی داستان سنانا چاہتی ہوں جس کے بعد تم اندازہ لگا سکو گے کہ تمہاری ماں جیسی ریاست کی باگ ڈور سنبھالے تمہارے بھائیوں کی نااہلی کی بدولت میرے بائیس کروڑ بچے بھی جس پریشانی اور کرب میں زندگی گزار رہے ہیں‘ انہیں دیکھ کر میری حالت اس پریشان حال ماں سے کم نہیں ہے جس کے کچھ بچے لاپتہ ہوچکے ہوں اور جو اس کے پاس ہوں‘ وہ بھی بھوک، افلاس، بیماری اور بے روزگاری کا شکار ہوں اور ان تمام تکالیف کی ذمہ دار میں نہیں بلکہ ریاست کی باگ ڈور سنبھالے تمہارے وہ خود غرض بھائی ہیں جنہوں نے گزشتہ ستر سے زائد برسوں میں صرف اپنی ذات اور اپنے مفادات کو مقدم رکھا، خود تو امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے لیکن ریاست کے کروڑوں بچے غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے۔ میری باگ ڈور سنبھالے ان نااہل اور خود غرض بچوں کی وجہ سے میں بطور ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے بھی قاصر ہو چکی ہوں۔ 

میں اپنی سب سے اہم ذمہ داری یعنی اپنے بائیس کروڑ بچوں کو تحفظ بھی فراہم نہیں کر سکتی۔ میرے بچو میں اپنی ریاست میں مقیم شہریوں کو صحت کی سہولیات بھی فراہم نہیں کر سکی، تمام سرکاری اسپتالوں کا معیار ناقص ہے، وہاں صرف وہ لوگ جاتے ہیں جو نجی اسپتالوں کا خرچ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے جب کہ سرکاری اسپتالوں کے بڑے ڈاکٹروں نے اپنے اپنے نجی کلینک کھول رکھے ہیں جہاں وہ سرکاری اسپتالوں سے مریضوں کو اپنے نجی اسپتالوں میں بلاکر مہنگا علاج کرتے ہیں۔ 

لہٰذا ریاست نہ ہی عوام کو تحفظ فراہم کر پا رہی ہے اور نہ ہی صحت و علاج کی سہولیات فراہم کر پا رہی ہے۔ تعلیم کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ریاستی سرکاری اسکول تو موجود ہیں لیکن ہزاروں کی تعداد میں گھوسٹ ملازمین بھی موجود ہیں جو صرف سرکاری تنخواہ وصول کرتے ہیں اور کاغذوں میں نظر آتے ہیں۔ 

اکثر سرکاری اسکول کے اساتذہ کے اپنے بچے بھی نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جس سے تعلیم کے پست معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دینی تعلیم کی ذمہ داری بھی عوام اور غیر ملکی این جی اوز کے چندوں سے پوری کی جا رہی ہیں۔ میری باگ ڈور سنبھالے تمہارے حکمران بھائیوں نے عوام کی بنیادی تنخواہ بھی اتنی رکھی ہے جتنے کا وہ خود ایک وقت میں کھانے کھاتے ہیں۔ اب نئی ریاست مدینہ کی بات کی جا رہی ہے لیکن اس نئی ریاست مدینہ میں صرف مدینہ کے نام کے علاوہ کچھ بھی ریاست مدینہ کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ 

بنگلہ دیش کے محصورین کیمپوں میں پھنسے میرے بچو، یہاں میرے پاس موجود بائیس کروڑ بچوں کی مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن تم لوگ مایوس نہ ہونا کیونکہ یہ تو گھر کی باتیں ہیں‘ کسی باہر والے سے کر بھی نہیں سکتے۔ مجھے امید ہے کہ جس دن میری باگ ڈور مخلص اور ایماندار بیٹوں کے ہاتھ میں آجائے گی‘ اس دن سے ملک کی ترقی کا سفر بھی شروع ہو جائے گی اور ریاست کے شہریوں کی عزت میں بھی عالمی سطح پر اضافہ ہو گا، پھر میں بھی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور جاپان کی طرح اپنے ایک ایک شہری کے لیے کسی بھی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے گریز نہیں کروں گی لیکن مناسب وقت کا انتظار کرو اور اس وقت تمہاری باعزت واپسی کا عمل شروع ہو گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین