• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دن میں نے اُن سے کہا، میں آپ سے ناراض ہوں، حیران ہو کر بولے، اچھا۔ کیوں؟ میں نے کہا، میں پچھلے دو دن سے آپ کو فون کر رہا تھا، فون اٹھانا، کال بیک چھوڑیں، یہ میسج بھی نہیں کہ ’’مصروف ہوں، فارغ ہو کر کال کرلوں گا‘‘ کہنے لگے، پچھلے دو دن سے سخت پھنسا ہوا تھا، وزیراعظم کی بریفنگ تھی، بورڈ میٹنگ تھی اور۔

میں نے بات کاٹ کر کہا، پچھلے دو دنوں میں آپ کے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ ایک موبائل میسج کر سکیں، زیرلب مسکرا کر بولے، نہیں، اتنا وقت تو تھا، میں نے کہا، پھر کیوں میسج نہ کیا، بولے، اب ناراضی ختم کیسے ہو سکتی ہے، میں نے کہا، وہ ایسے کہ اب جب بھی میں کال کروں، آپ چوتھی موبائل گھنٹی بجنے سے پہلے فون اٹھائیں گے، بولے، ڈن، میں نے کہا، جنٹلمین پرامس؟ بولے جنٹلمین پرامس۔

اُس کے بعد اُنہوں نے واقعی جنٹلمین بن کر وعدہ نبھایا، میں نے جب بھی فون کیا، چوتھی گھنٹی بجنے سے پہلے فون اٹھایا، اکثر سچویشن مشکل بھی ہوتی مگر فون ضرور اٹھا لیتے، جیسے ایک مرتبہ فون کیا، بولے ’’بورڈ میٹنگ میں ہوں، بعد میں فون کرتا ہوں‘‘، ایک دفعہ فون کیا، پھنسی پھنسی آواز میں آہستگی سے بولے، ’’ایک جنازے پر ہوں، یہاں سے نکل کر فون کرتا ہوں‘‘، ایک بار فون کیا، بولے، ’’بھائی جان پھنسا ہوا ہوں، بعد میں بات ہوتی ہے‘‘، مطلب ہمیشہ چوتھی گھنٹی بجنے سے پہلے فون اٹھا لیتے، بات آگے بڑھانے سے پہلے بتادوں کہ میں کس کی بات کررہا، میں اپنے دوست، بڑے بھائی، اچھے انسان، کمال کے بیوروکریٹ معروف افضل کی بات کر رہا، جو چیئرمین این ایچ اے، چیئرمین سی ڈی اے، وفاقی سیکرٹری آئی ٹی، سیکرٹری کابینہ ڈویژن رہے، ریٹائر ہوئے، ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن بنے، ابھی چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن نامزد ہوئے مگر حلف اٹھانے سے پہلے کورونا کا شکار ہوئے اور سب کو چھوڑ کر وہاں چلے گئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔

معروف بھائی میرپور آزاد کشمیر کے، گورے، چٹے، سرخ، شکلاً بھی کشمیری لگتے، دوستوں کے دوست، آپ کوئی کام کہہ دیں، آپ بھول جائیں گے وہ نہیں بھولیں گے، جب تک کام کسی سرے نہیں چڑھے گا، آپ کو کام کے حوالے سے بتاتے رہیں گے۔

رج کے بےاحتیاط، زکام، بخار ہو جائے، چائے کا کپ پی کر مطمئن ہو جاتے، بہت تیر مارا تو دیسی انڈا کھا لیا، میں اکثر کہتا، بھائی جان ڈاکٹر سے چیک کروایا کریں، زکام، بخار آپ سے انڈا وِد چائے کھانے نہیں آتا، ہنس کر کہتے، یہ واقعی انڈا، چائے کیلئے آتا ہے، دیکھا نہیں انڈے، چائے کے بعد ٹھیک ہو گیا ہوں، مجھے دکھ ہوتا کہ وہ ہر بیماری کا علاج ٹونوں، ٹوٹکوں سے کرتے مگر اصل دکھ تب ہوتا جب وہ اِن ٹونوں، ٹوٹکوں سے تندرست بھی ہو جاتے۔

اِس پیسہ پیسہ کرتے دور میں معروف بھائی کا دامن ہمیشہ صاف رہا، چیئرمین این ایچ اے، چیئرمین سی ڈی اے سمیت ملک کے اہم عہدوں پر رہنے کے باوجود اپنا ذاتی گھر نہیں تھا، ہمیشہ دوستوں کے مقروض رہتے، ایک بار میں کہہ بیٹھا، جس بندے کو رشوت آفر ہی نہ ہوئی، اُس نے رشوت کیا لینی، جسے کوئی دو نمبری کا موقع ہی نہ ملا ہو، وہ ایماندارہی ہوگا، یہ سن کر پہلے قہقہہ مارا پھر اُس دن ایسی ایسی رشوت آفر کہانیاں، ایسی ایسی پیشکشیں بتائیں کہ گھنٹے ڈیڑھ بعد مجھے کہنا پڑا، بس کر پگلے اب رلائے گا کیا؟ طبیعت ایسی کہ کبھی چہرہ بنا مسکراہٹ کے نہیں دیکھا، معاملہ جتنا سنجیدہ ہو یہ اتنے ہی ریلیکس، ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مدد کرنا اور وہ بھی ایسے کہ کسی کو خبر نہ ہونا، یہ اُن کا معمول، فوج سے سول سروس میں آئے، میں اکثر اُنہیں کہتا، بندہ فوجی اوپر سے بیورو کریٹ، اوپر سے پاکستان میں، موجاں ای موجاں، جواب آتا، محنت کر، حسد نہ کر، یہ پندرہویں کامن کے تھے، طاہر حسین شاہ (سابقہ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان)، جواد رفیق ملک (چیف سیکرٹری پنجاب) اور رضی الدین صفدر (ایک پرائیویٹ گروپ سے منسلک) کے لنگوٹیے، ہر وقت اسی گروپ میں پائے جاتے، میرے لئے وہ معروف بھائی تھے لیکن اُن تینوں کے موفی ڈارلنگ۔

ہمارے دوست رضی الدین صفدر جو ایک پرائیویٹ گروپ میں کنسلٹنٹ، اُن کا رنگ ذرا زیادہ سانولا (بقول معروف بھائی، رضی نے بڑی محنت، ریاضت سے اپنے سانولے رنگ کو زیادہ سانولا کیا)، اگر معروف بھائی اُن کے ساتھ ہوتے، میں فون کرتا، فون اٹھا کر بناکسی سلام دعا کے کہتے، ڈسٹرب نہ کرو، اِس وقت رضی چٹے (سفید) کے ساتھ ہوں، یاد رکھو یہ جتنا باہر سے چٹا ہے اُس سے ڈبل چٹا اندر سے ہے، اکثر کہتے، رضی کنسلٹنٹ ہے، یہ بڑی مزیدار نوکری، کوئی کام خراب ہو جائے تو مسکین سا منہ بنا کر کہہ دو، مجھے کیا، میں تو کنسلٹنٹ تھا، کام اعلیٰ ہو جائے تو فخریہ لہجے میں فرماؤ، کام کیسے ٹھیک نہ ہوتا، ارے میں کنسلٹنٹ تھا، معروف بھائی کمال کے خوش لباس، برانڈڈ کپڑے پہننا، 80فیصد کپڑے دوستوں کے دیے تحفے۔

معروف بھائی کی باتیں، نجانے کتنی مجلسیں، محفلیں، بیٹھکیں، پوری کتاب بن جائے، اُن کے بیمار ہونے کی کہانی بھی عجیب و غریب، کچھ عرصہ پہلے طبیعت خراب ہوئی، ٹیسٹ کروایا، کورونا پازیٹو، ٹونوں، ٹوٹکوں سے علاج، آئسولیشن، دوبارہ ٹیسٹ ہوا، کورونا منفی، یہ بحیثیت ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن سرکاری انٹرویو کیلئے کوئٹہ گئے۔

پھر کراچی گئے، وہیں پتا چلا کہ اُنہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین بنا دیا گیا، 3دن کراچی میں رہ کر واپس اسلام آباد آئے، بخار چڑھا، گلہ خراب ہوا، گھر والوں، دوستوں کے کہنے پر دوبارہ کورونا ٹیسٹ کروایا، دوبارہ کورونا پازیٹو، آئسولیشن میں چلے گئے، طبیعت خراب ہوئی، سی ایم ایچ راولپنڈی میں داخل ہوئے، اِس بار کورونا کا حملہ پھیپھڑوں پر تھا، پھیپھڑے بری طرح متاثر ہوئے، سانس کا مسئلہ ہوا، 15دن وقفے وقفے سے آکسیجن لگتی رہی مگر طبیعت بہت زیادہ خراب نہ تھی، مجھے کبھی نہیں بھول پائے گا، میں سینئر دوست جاوید چوہدری کے پروگرام کے بعد نکل رہا تھا کہ کورونا کی دوسری لہر کی سنگینی پر بات کرتے ہوئے اچانک چوہدری صاحب بولے، ابھی خبر ملی ہے کہ معروف افضل کا کورونا کی وجہ سے انتقال ہو گیا ہے، میں نے چونک کر کہا، کیا۔

معروف بھائی کا انتقال ہو گیا، ناممکن، کیسے ہو سکتا ہے، دوپہر تک طبیعت بہتر تھی، وہ بولے، اُن کا انتقال ہو گیا۔ میں اسٹوڈیو سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھا، چند لمحے سوچا، موبائل نکالا، معروف بھائی کا نمبر ملایا، جب تیسری کے بعد چوتھی گھنٹی بج گئی، میرے ہاتھ سے موبائل گرا، میں نے گاڑی کے اسٹیئرنگ پر سر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

تازہ ترین