• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فقیر کو کامل یقین ہے سرکار کہ دور اقتدار کے آخری ڈھائی برسوں میں آپ ملک میں کروڑوں لوگوں کو عذابوں سے نجات دلوانے جیسی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ پچھلے منگل کے روز فقیر نے آپ کی توجہ چھ سات کروڑ، دو وقت کی روزی روٹی کے چکر میں سرگرداں ٹھیلے لگانے اور ریڑھیاں دھکیلنے والے بے بسوں کی طاقتور بھتہ خوروں کے ہاتھوں بہتر برسوں سے ہونے والی ذلت کی طرف مبذول کروائی تھی۔ حکومتیں سویلین ہوں یا فوجی، کسی حکومت میں دم خم نہیں دیکھا کہ جو بھتہ خوروں کا قلع قمع کر سکے اور بے بسوں کو ان کے عذاب سے نجات دلوا سکے۔ ملک بھر کے فقیر سمجھتے ہیں کہ آپ سرکار یہ کام کر سکتے ہیں۔ آپ سرکار یہ کام اس لئے کر سکتے ہیں کہ آپ بنیادی طور پر سوشل رفارمر Social Reformerہیں۔ اور سوشل رفارمر کبھی بھی سیاستدان نہیں بن سکتا۔ آپ پچاس لاکھ غریبوں کو گھر بنوا کر دیں گے۔ ایک کروڑ بے روز گاروں کا روز گار لگائیں گے! سرکار یہ سب سیاسی بیانات ہیں۔ ملک کی اقتصادی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ملک کے ذہین ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عشرت حسین آپ کے ساتھ ہیں۔ اس نوعیت کے اعلانات کرنے سے پہلے ان سے مشورہ کر لیا کریں۔ نفیس آدمی ہیں۔ آپ کو اچھا مشورہ دیں گے۔

کبھی کبھار فقیروں کی بات غور سے سن لیا کریں۔اس میں اگر فائدہ نہیں ہے، تو پھر کسی قسم کا نقصان بھی نہیں ہے۔ آپ ایک کان سے بات سن کر دوسرے کان سے نکال دیا کریں مگر بات سن تو لیا کریں۔ سرکار… اگر دیکھا جائے تو یہ ایک سوشل رفارم کی بات ہے۔ اس میں کسی قسم کی گندی سیاست نہیں ہے۔ ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے والے بے روز گار ہو سکتے ہیں ۔ مگر ہنر مند بے روز گار نہیں ہوتے۔ گھروں میں آئے دن پلمبر کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ الیکٹریشن کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ مکینک کی ضرورت پڑتی ہے۔ ترکھان کی ضرورت پڑتی ہے۔ رنگ روغن کرنے والوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ موٹر سائیکل اور گاڑی ٹھیک کرنے والے مستری کی ضرورت پڑتی ہے۔ لوگوں کو ہنر سکھائیں اور ہنر سکھانے کے لئے پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ کھولیں۔ لاکھوں کروڑوں نہیں۔ سردست پانچ سو پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ کھولیں۔ جو بند پڑے ہوئے ہیں ان انسٹی ٹیوٹس کو فعال کروائیں۔ پرانے دور کی مشینوں کی جگہ نئی مشینیں لگائیں۔ یہ سیاسی کام نہیں ہے۔ یہ سوشل رفارمز ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں تبدیلی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جو ہم سب دیکھ سکیں گے۔

آپ بنیادی طور پر سوشل رفارمرہیں۔ سیاست میں اچھی تبدیلی لے آنا ایک طرح سے سوشل رفارم ہے۔ ہمارے ملک کی سیاست میں پچھلے بہتر برس سے گندی روایت چلی آرہی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد حاکم وقت پچھلی حکومت کو نااہل، کرپٹ او رنالائق ثابت کرنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیتا ہے۔ یہ افسوس ناک روایت انیس سو سینتالیس سے آج تک بڑی پابندی سے چلی آرہی ہے۔ آنے والا ہر نیا حاکم اپنی نااہلی اور ناکامیوں کو پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔ گنے چنے رٹے ہوئے جملے پریشان حال قوم کو سننے پڑتے ہیں۔ مثلاً ، ہم آپ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں،مگر کیا کریں کہ پچھلے حکام لوٹ مار کے بعد خزانہ خالی چھوڑ گئے تھے۔ خالی خزانے سے ہم آپ کی خدمت کیسے کریں؟ ہم قوم کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے اچھے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھولنا چاہتے ہیں۔ ہم نئے اسپتال بنوانا چاہتے ہیں۔ آپ کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر کیا کریں کہ پچھلی کرپٹ حکومت ہمارے لیے مقروض ملک چھوڑ گئی ہے۔ قرض کی ایک قسط ادا کرنے کے لئے ہمیں کسی برادر ملک سے قرض لینا پڑتا ہے۔ اس نوعیت کے حیلے بہانے بنانا ہر حکومت کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ آپ سرکار تبدیلی کے بڑے داعی ہیں۔آپ اس مکروہ روایت کوروک سکتے ہیں۔ فقیر نے لگا تار بہتر برس حاکموں کو آتے اور جاتے دیکھا ہے۔ آپ کے نٹ کھٹ ایڈوائزوں نے اس سلسلے میں اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ اس سے پہلے ملک کی بہتر سالہ تاریخ میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا ہے، مگر ایک دوسرے کے لئے ڈاکو، چور ،لٹیرے، جیب کترے ، فراڈیے جیسے الفاظ استعمال نہیں کیے تھے۔ آپ کے نٹ کھٹ ایڈوائزر پاکستان میں سیاسی زوال کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ آپ اپنے نٹ کھٹے ایڈوائزوں کو آداب سیاست سکھائیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ عروج کے نصیب میں زوال لکھا ہوا ہوتا ہے۔ چڑھتے سورج کو شام ڈھلے غروب ہونا پڑتا ہے۔ آپ سرکار اپنے باقی ماندہ اقتدار کے ڈھائی برسوں میں پاکستان کی سیاسی لغت کی اصلاح کریں۔ بہت ضروری ہے سرکار۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے جانے کے بعد آنے والی حکومت کے فرماں رواں آپ کے لئے ویسے الفاظ استعمال کریں جو الفاظ آپ پچھلے حکمرانوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔آپ چاہیں تو سیاسی لغت میں اصلاح لا سکتے ہیں۔ ورنہ دیوار پر لکھا ہو اکوئی نہیں مٹا سکتا۔

’’تم لوگ مجھے نہیں جانتے کہ میں کیا کر سکتا ہوں‘‘۔

’’سب کو دیکھ لوں گا۔‘‘ کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ اس طرح کا لب و لہجہ فقیر کو کراچی کے پرانے دادا گیروں کی یاد دلواتا ہے۔ وہ آستینیں چڑھاتے تھے اور منہ پر ہاتھ بھی پھیرتے تھے۔

تازہ ترین