• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے اپنے گزشتہ کالموں سے کچھ اقتباسات:
انتخابات سے چوبیس گھنٹے قبل 10مئی کو شائع ہونے والے کالم میں، میں نے لکھا۔
”ایک بات انتخابات سے کئی گھنٹے قبل نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔ میڈیا کی بے نظیر تڑپ پھڑک، پی ٹی آئی کے ہمنوا قلم کاروں کے بے مثل شہ پاروں، پُراسرار ذرائع سے آنے والے اربوں روپے کی ریل پیل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بننے والے ہزاروں حشر ساماں اشتہارات، خواب فروشوں کی پرواز تخیل اور تبدیلی کے خوش نما نعروں کے باوجود ”صاف چلی شفاف چلی“ کا سونامی نہیں آ رہا اور اس کی حکومت قائم نہیں ہو رہی۔ وہ صرف اتنے ارکان کے ساتھ قومی اسمبلی میں جا سکے گی کہ متحرک اور فعال حزب اختلاف کا کردار ادا کر سکے۔ اس کے علاوہ اسکے سامنے دو آپشنز ہونگے۔ پہلا یہ کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت میں شریک ہو جائے اور دوسرا یہ کہ وہ عالی مرتبت آصف علی زرداری کی پانچویں حکومت کا حصہ بن جائے۔ کچھ دوستوں کے خیال میں آتش بداماں تحریک انصاف کے سامنے ایک تیسرا آپشن بھی ہے۔ وہ یہ کہ انتخابات میں دھاندلی ہو گئی، ”عوام کا مینڈیٹ لوٹ لیا گیا اور ہم ان نتائج کو نہیں مانتے“۔ دیکھئے 12مئی کی صبح ”صاف چلی شفاف چلی“ کس صاف ستھرے راستے کا انتخاب کرتی ہے“۔
انتخابات سے چار دن قبل7 مئی کو شائع ہونے والے کالم کا عنوان تھا ”12مئی کیا خبر لائے گا“۔ اس کالم کا ایک پیراگراف تھا ”اندر اور باہر کی ہوائیں یہ خبر دے رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) یہ انتخابات جیتنے جا رہی ہے۔ معروف برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے دو دن پہلے پاکستان بھر کی انتخابی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ ”نواز شریف وزارت عظمیٰ کی دہلیز پر کھڑا ہے“۔ اکانومسٹ نے تازہ ترین شمارے میں مسلم لیگ (ن) کے گراف کو بلند ترین قرار دیا۔ فنانشل ٹائمز نے یہ خبر دی ہے کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج میں اس تاثر کے باعث نہایت تیزی آ گئی ہے کہ نواز شریف کی حکومت بننے والی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں اور معتبر عالمی اخبارات کے ان تبصروں میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ مختلف حلقوں میں بھی مقامی بنیادوں پر کرائے گئے سرویز بھی اسی رجحان کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ زبان خلق اگر واقعی نقارہٴ خدا ہے تو اس کی گونج بھی یہی ہے۔ نواز شریف کی بدن بولی کے ایک ایک انگ سے یقین محکم جھلک رہا ہے۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ تمام تر شور و غل کے چونچال پن کے باوجود اگر پی ٹی آئی دو درجن سے زائد سیٹیں لے جاتی ہے تو یہ اس کی کرشماتی کارکردگی ہو گی۔ اگر سونامی مسلم لیگ (ن) کے قلعے کی فصیلوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا تو پی پی پی اور (ق) لیگ 12مئی کو ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے بین کر رہی ہوں گی“۔
زمینی حقیقتوں اور سیاسی موسموں کی بُو باس پر نگاہ رکھنے والے غیر متعصب تجزیہ کار تسلسل کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ کوئی سونامی نہیں آ رہا اور مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ وہ دہائی دیتے رہے کہ ایک دو شہروں میں پیدا ہونے والے ارتعاش کی بنیاد پر یہ رائے قائم نہ کی جائے کہ بلند ریکٹر اسکیل کا کوئی بڑا بھونچال آنے والا ہے جو پاکستانی سیاست کے در و دیوار ہلا کے رکھ دے گا۔ لیکن خواب فروش بدستور انقلاب کے پھریرے لہراتے، فتوحات کے پرچم گاڑتے رہے۔ وہ اللہ رسول کی قسمیں کھاتے اور لوگوں کے دل و دماغ میں خوش گمانیوں کی فصل بوتے رہے۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ الیکٹرانک میڈیا پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ وہ بھول گیا کہ اعتدال کیا ہوتا ہے اور توازن کسے کہتے ہیں۔ جانے یہ ہوس زر تھی یا پس چلمن بیٹھی کسی حسینہ کی شوخ چشمی، میڈیا پر ”سر بازار می رقصم“ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس نے حقائق کو مسخ کرنے، مسلم لیگ (ن) پر کیچڑ اچھالنے، پی ٹی آئی کا چہرہ اجالنے اور اس کی انتخابی مہم کو آب و رنگ دینے کے لئے اپنی ساکھ تک کو داؤ پر لگا دیا۔ کاش کوئی ایسا بندوبست ہوتا کہ اب یہ لوگ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچتے اور اپنے اس کردار پر غور کرتے جو میڈیا کی تاریخ کے ایک سیاہ ورق کے طور پر یاد رہے گا۔الیکشن کمیشن کی آنکھوں میں بینائی تھی نہ اعضاء میں توانائی۔وہ اس حیا باختہ تماشے سے لا تعلق بیٹھا رہا۔ بعض ٹی وی اینکرز تبدیلی اور انقلاب کی آرزو میں باؤلے پن کی حدوں تک چلے گئے اور کچھ قلم کاروں نے ایسی اچھل پھاند کی کہ خدا کی پناہ۔ ایسے میں جس کسی نے کہا کہ اللہ کے بندو ذرا زمینی حقائق پر بھی نظر ڈال لو، اسے سینگوں میں پرو لیا گیا اور ایسی عریاں گالیاں دی گئیں کہ زمین و آسمان میں نہ سمائیں۔ میڈیا کے اس بے ہنگم چونچال پن نے پی ٹی آئی کو انتخابات کی دوڑ میں شریک ایک سیاسی جماعت کے بجائے ”فیشن“ کا درجہ دے دیا۔ رقص و موسیقی کا لہروں پر تھرکتا ایسا شوخ و شنگ فیشن جو آسودہ حال اپر کلاس کلچر کی نس نس میں سما گیا۔ خان صاحب اندازہ ہی نہ کر سکے کہ فیس بک، انٹرنیٹ اور ٹویٹر کی دنیا میں جادو جگاتا یہ کلچر غریبوں، محنت کشوں اور زیریں متوسط طبقوں کے گھروں تک نہیں پہنچ سکا۔ میڈیا کی طراری نے بھی خوش گمانیوں کی ایسی رنگین دھند پھیلا دی کہ خان صاحب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز، خبر ناموں اور عمومی پروگراموں اور اخباری کالموں کا خلاصہٴ کلام یہ تھا کہ پی ٹی آئی نے پاکستان فتح کر لیا ہے۔ عمران خان کو وزیراعظم قرار دے دیا گیا ہے۔ عوام کو آگاہ کیا گیا کہ اب وہ اپنی کابینہ تشکیل دینے اور قوم سے خطاب کی تیاری میں مصروف ہیں۔ 10مئی کی شب، مہینوں پر مشتمل اس سرکس کی آخری پیش گوئی یہ تھی کہ تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر چکی ہے۔ دوسرا نمبر پیپلز پارٹی کا ہو گا اور اگر مسلم لیگ (ن) زندہ رہی تو تیسرے نمبر پر رہے گی۔
انتخابات سے کوئی ہفتہ بھر قبل کاشف عباسی کے شو میں جب فوزیہ قصوری نے دعویٰ کیا کہ ہم دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے جا رہے ہیں تو یہ اس طرار اور دروغ گو میڈیا کا کرشمہ تھا جس نے پی ٹی آئی کے پرستاروں کو حقائق سے بہت دور کر دیا تھا۔ وقفے کے دوران کاشف کہنے لگا۔ آپ کے خیال میں مسلم لیگ (ن) کتنی سیٹیں جیت لے گی۔ میں نے کہا ایک سو سے زائد۔ پھر وہ کہنے لگا ”تحریک انصاف کتنی سیٹیں لے گی“۔ میرا جواب تھا کہ ”میں اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں۔ اب رہنے دو فوزیہ کا دل ٹوٹ جائے گا“۔ کاشف کہنے لگا ”میں نے وہ کالم پڑھا تھا“۔ پھر اس نے کاغذ پر 25 کا ہندسہ لکھا اور فوزیہ سے چھپا کر مجھے دکھاتے ہوئے بولا ”یہی نا“۔ میں نے کہا ”جی ہاں کم و بیش یہی“۔ کاشف نے اس کی تائید نہ کی۔
خان صاحب کی تین اور جاوید ہاشمی کی دو سیٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کا اسکور کم و بیش یہی بنتا ہے۔ پنجاب کی 148 سیٹوں میں سے اس کے کل سات ارکان منتخب ہوئے۔ آسمانِ انقلاب پر دمکتے تبدیلی کے ان درخشاں ستاروں کے نام ہیں شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، رائے حسن نواز، شفقت محمود، غلام سرور خان، امجد خان اور خود عمران خان۔ خود خان صاحب کو ذرا دیر کے لئے ایک طرف رکھتے ہوئے غور فرمائیے کہ ان میں سے کون ہے جس کی قبائے خوش رنگ سے ”نئے پاکستان“ کی بوئے دل آویز آ رہی ہے۔ ان میں سے کون ہے جس کا ناتا اسٹیٹس کو کی حامل متعفن جماعتوں سے نہیں رہا؟ ان میں سے کوئی ہے جس کی زندگی تبدیلی اور انقلاب کے مقصد بلند کے لئے خون پسینہ بہاتے گزری ہے؟ ان میں سے کون ہے جو تازہ لہو کی نوخیز علامت یا نوجوانی کا جنون خیز استعارہ ہے؟ سب کی عمریں پچاس ساٹھ سال کے پیٹے میں ہیں۔ سب روایتی سیاست کے جانے پہچانے کھلاڑی ہیں۔ ان میں سے کسی کا رشتہ اس تحریک انصاف سے نہیں رہا جو پندرہ برس تک صحراؤں کی خاک چھانتی رہی۔ سب کے سب نے اس وقت پی ٹی آئی کی طرف اڑان بھری جب لاہور کا معروف جلسہ ہو چکا تھا اور تحریک انصاف کے رخساروں میں گلاب دہکنے لگے تھے۔ کیا یہی ہے وہ تبدیلی جس کا بہت چرچا تھا؟ کیا اسی کو انقلاب کہتے ہیں؟ کیا یہی ہے نیا پاکستان؟
توقع کے عین مطابق خان صاحب نے ایک سنجیدہ مزاج اور مدبر رہنما کے بجائے کوچہ و بازار کی سطحی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”دھاندلی“ کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ انہیں فاتح حریف کو مبارکباد دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ لکھ رکھئے کہ خان صاحب کا یہ رویہ ان کی نوخیز جماعت کے لئے مزید کئی المیے رقم کرنے جا رہا ہے۔
تازہ ترین