• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بھرپور اور خوب صورت پیغام دنیا کے لئے کہ ہم دہشت گرد نہیں جمہوریت گرد لوگ ہیں، دوسرا پیغام دہشت گردوں کے لئے کہ قوم جی دار ہے جوسر ہتھیلی پر سجا کر جشن جمہوریت منانے نکلی کہ اک آگ کا دریا تھا اور تیر کے جانا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم پاراتر آئے۔
میرے دیرینہ خواب کی تعبیر کے پہلے مرحلہ کا آغاز ہوچکا۔ ”تیسری قوت“ میدان میں ہے جو پاکستان کے لئے کسی نیک شگون سے کم نہیں۔ قدرت انتہائی شفقت اور بے رحمی کے ساتھ عمران خان کی تربیت میں مصروف ہے۔ سولہ سترہ سال در در بھٹکنے کے بعد عمران خان اک سیاسی حقیقت میں تبدیل ہوچکا کہ یہ اعلان میں بہت پہلے کرچکا تھا اور اسی کالم میں کہ ”سوئپ“ تو سرپر پاؤں رکھ کر بھاگ چکی۔ پی ٹی آئی نے ٹکٹوں کی تقسیم میں جو بدتمیزی کی اس کا نتیجہ نوشتہ ٴ دیوار تھا جس پر میں تلواربکف ہوا تو سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا۔تحریکی سپورٹرز کے احترام میں، میں نے تلوار نیام میں ڈالی اور تمام تر غصہ کے باجود پھر پی ٹی آئی کی سپورٹ شروع کردی جو تب تک جاری رہے گی جب تک آخری فیصلہ نہیں ہوجاتا۔
میرے نزدیک ن لیگ کی حکومت بوسہ ٴ مرگ سے کم نہیں تھی لیکن یہ ہوچکا تو اس مرحلہ پر میری خواہش ہی نہیں کوشش بھی ہوگی کہ کوئی رخنہ اور رکاوٹ ان کا راستہ نہ روکے۔ دہشت گردی، برباد معیشت، خوفناک مہنگائی اور اندھیرنگری چوپٹ راج اپنے عروج پرہے۔ ”اندھیر نگری“ سے میری مراد ہے لوڈشیڈنگ اور چوپٹ راج کا مطلب ہے گڈ گورننس کا قحط ،تواب آؤ اور……
دہشت گردی کا علاج کرو۔
اندھیروں کو اجالوں میں تبدیل کرو۔
معیشت کا جو پہیہ جیم ہوچکا، اسے دوبارہ چالو کرو۔
گڈ گورننس کا تحفہ پیش کرو۔
سیاسی و انتظامی کلچر تبدیل کرو۔
پھولوں کی سیج نہیں، زہریلے کانٹوں اور دہکتے کوئلوں کا بستر تمہارا منتظر ہے اور خواب فروشی کا موسم ختم ہوا کہ تخت، تختہ اور تختہ ٴ دار کا فرق اور فاصلہ مٹ چکا۔ سیاستدانوں کو صرف سیاسی موت ہی مارسکتی ہے۔ بھٹو کو پھانسی نہ مار سکی، نوازشریف کو جلاوطنی ختم نہ کرسکی لیکن ”پرفارمنس“ کا امتحان جان لیوا ہوتاہے۔ لوگوں کے خواب چکناچورہوئے تو عذاب کے لئے تیار رہو۔
ادھر زخمی عمران خان کے لئے ایک نیا امتحان کہ اپوزیشن ان حالات میں اقتدار سے بھی مشکل اور یہاں تو قصہ ہی کچھ اور ہے کہ اپوزیشن تو ہے ہی، ”کے پی کے“ میں ”جزوی اقتدار“ کا خطرہ بھی ہے۔ ن لیگ اگر تنے ہوئے رسے پر چلے گی تو پی ٹی آئی بھی تلوار کی دھار پر ہوگی۔ تاؤلا ایجی ٹیٹر اور بڑھاپے میں بھی ”سٹوڈنٹ لیڈر“ جاوید ہاشمی کو خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا بہت شوق ہے حالانکہ عقل ہو تو اس سے احتراز کریں کہ زہر کے پیالے سے پیاس بجھانا خودکشی کے مترادف ہے لیکن یہ سنیں گے نہیں اور بہترین گورننس اک ایسا سراب ثابت ہوگا جس میں یہ ایڑیاں رگڑتے رہیں گے، چشمہ نہیں پھوٹے گا اور اگر پھوٹا تو یہ چشمہ پانی نہیں… خون کا ہوگا۔
عمران کو پوری قوت و شدت کے ساتھ ساری صورتحال کا سفاکانہ پوسٹ مارٹم کرناہوگا۔ اپنی غلطیوں اور حماقتوں کی فہرست مرتب کرنا ہوگی کہ ذاتی طور پر مقبولیت میں نمبر ون ہونے کے باوجود وہ وکٹری سٹینڈ پر تیسری پوزیشن میں کیوں ہے؟
جن احمقوں کاخیال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی تحلیل ہوچکی ان کے پاس احمقوں کی جنت کی شہریت ہے کیونکہ وہ باؤنس بیک کرے گی کہ اس بار تو ان کے پلے ہی کچھ نہ تھا اور سچ یہ ہے کہ الیکشن نتائج اس سارے کھیل کا انجام نہیں… آغاز ہیں۔ الیکشن سے پہلے بھی کئی بار یہ لکھ چکا ہوں کہ الیکشن سے زیادہ اہم سوال میرے لئے یہ ہے کہ الیکشن کے بعد کیاہوگا؟ ”دیباچہ“ تو دنیا دیکھ چکی اب اصل کہانی شروع ہوگی جس میں ایکشن، سسپنس، تھرل اور کامیڈی سمیت سب کچھ ہوگا۔
اس ساری صورتحال پر اس ہلکے پھلکے تبصرے کے آخر پریہ سوال بھی خاصااہم ہے کہ مذہبی جماعتوں کاکیا ہوگاجنہیں کچھ لوگ ”دینی جماعتیں“ کہنے پر مصر ہیں لیکن انہیں ”دینی“ قرار دینے کا دوسرا مطلب ہے کہ باقی ”غیردینی“ ہیں سومیں انہیں ”مذہبی“ کہنے پر مصر ہوں کیونکہ ”دینی“ اور ”مذہبی“ کا فرق جانتا ہوں۔ ان کے ”انجام“ میں بھی انتہاپسندوں کے لئے عوام کا پیغام بہت واضح ہے۔
ن لیگ، پی پی پی، پی ٹی آئی اور دیگر بالخصوص مذہبی جماعتوں کے لئے بہت سے پیغام ہیں۔ کیا یہ سب اپنے اپنے پیغامات کو ٹھیک سے سمجھ سکیں گے؟ کوئی اور سمجھے نہ سمجھے، پی ٹی آئی کوپیغام سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہئے کہ مزید کسی غلطی کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں۔
تازہ ترین