• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے مختلف پیمانے استعمال کئے جارہے ہیں۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ملکی معیشت ترقی کی جانب گامزن ہے۔ یا حکومتی اقدامات ایسے ہیں جس سے ملک کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے اور پیداوار بڑھ رہی ہے۔ جس میں سب سے زیادہ دعویٰ ریئل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اور موٹر سائیکل انڈسٹری کی ترقی کا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی موٹر سائیکل انڈسٹری کی پیداوار میں اضافہ یعنی اس صنعت کی ترقی ملک کی ترقی کی ضامن ہے؟ کیا صرف موٹر سائیکل کی ڈیمانڈ میں اضافہ قومی پیداوار میں اضافہ اہم ذریعہ ہے؟ یا یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ملک میں اور خاص طور پر کراچی میں جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، ماس ٹرانزٹ تو دور کی بات پبلک ٹرانسپورٹ ہی ناپید ہے۔ اتنا بڑا شہر ڈھائی کروڑ سے زیادہ کی آبادی پر مشتمل وہاں آمدورفت کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومتی دعوؤں کے باوجود آج تک پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پرکوئی نظام نا آسکا۔ بلکہ جو پہلے تھے بھی انہیں بھی جان بوجھ کر ختم کیا گیا۔ اب یہ حال ہے کہ سڑک پہ موٹر سائیکلوں کی بھرمار ہے، جو بڑی بے ترتیبی سے سڑکوں پہ چلتی ہیں، اور ٹریفک نظام کو برباد کر رہی ہیں۔ دوسرے نئی گاڑیوں کی خریداری کے لئے بینکنگ سیکٹر کی طرف سے قرضوں کی فراہمی نے لوگوں کے لئے گاڑیوں کا حصول آسان بنادیا ہے ۔ لیکن کیا یہ بھی ترقی کی مثال ہے یا مسئلہ کا حل؟ لیکن اس کے نتیجے میں ٹریفک کا جام ہونا عام بات ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے ایک طرف ایندھن کے خرچ میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف روز ٹریفک میں پھنسے رہنے کی وجہ سے لوگوں کے مزاج میں جھنجھلا ہٹ، چڑچڑاپن اور غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔لیکن ارباب اقتدار و اختیار کوئی توجہ دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ بہت زور شور سےکراچی میں yellow and green bus lines کا یلو اور گرین لائن منصوبے کا افتتاح کیا گیا تھا۔ لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی فنکشنل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اربوں روپے لاگت سے بننے والے منصوبے کو 2008 میں مکمل ہونا تھا مگر اب تک تکمیل مکمل نا ہوسکی ہے۔ اور یہ منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔ کافی جگہ پہ یہ کام مکمل ہوچکا ہے وہاں اس کو بھی کئی برس بیت چکے ہیں۔ لیکن مسلسل بیکار پڑے رہنے کی وجہ سے اس کے خراب ہونے کا خدشہ زیادہ ہے۔اب اس منصوبے کو مکمل کرنے صرف بسوں کو چلانا ہے تاکہ اس کو operative کیا جاسکے۔ لیکن چونکہ یہ منصوبہ پچھلی حکومت کا تھا اس لئے اس کی تکمیل کے موجودہ حکومت کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہ رہی ،صوبائی حکومت ویسے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ کیا سیاسی انا ملکی ذرائع کی بربادی سے زیادہ بڑی چیز ہے؟ کیا عوامی فوائد کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا ۔ پشاور میٹرو جو بعد میں بنی لیکن جیسے تیسے بھی اب چل پڑی ہے۔ میڈیا نے اس کو چلانے کتنا اہم کردار ادا کیا لیکن کراچی کی گرین لائن پہ وہ کیوں خاموش ہیں ؟ کیا وہ عوام دوست منصوبہ نہیں کیا اس پر ٹیکس دینے والوں کی آمدنی خرچ نہیں ہوئی۔ اگر اس منصوبہ کو پورا کرنا ہی نہیں تھا تو شروع کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ امید دلا کر کیوں لوگوں کو مایوس کیا ؟سونے پہ سہاگہ یہ کراچی والے اس گرین لائن اور یلو لائن کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنا دل مسوستے ہیں کہ اس اربوں روپے کی لاگت سے بنے منصوبہ کو برباد کیا جارہا ہے۔ اسکیلیٹرز کھلے ہونے کی وجہ سے گرد و غبار میں ڈوب چکے ہیں، لوہے پہ زنگ آچکا ہے ، بارشوں کی وجہ سے سڑکیں خراب ہوچکی ہیں ، جہاں پل ہیں وہاں نیچے کچرے کے ڈھیر ہیں اور غیر قانونی قابضین اپنی آبادی قائم کرچکے ہیں ۔لیکن راوی سب چین لکھ رہا ہے۔ کیوں کہ کرپشن صرف سابقین نے کی اور ملکی پیسے کا ضیاع ہونے دینا تھوڑی ہی کرپشن ہے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین