• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نہ جانے کیوں اس اعتراف کا تکلف کراچی تک محدود رکھا کہ وہ (الیکشن کمیشن آف پاکستان) وہاں آزادانہ اور شفاف انتخاب کرانے میں ناکام ہو گیا ہے۔ نہ صرف کراچی بلکہ درحقیقت دبنگ اور اپنی منصف المزاجی کی نیک نامی رکھنے والے فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں قائم الیکشن کمیشن آف پاکستان خیبر پختونخوا جیسے صوبے سمیت ملک بھر میں آزادانہ اور شفاف انتخابات منعقد کرانے میں ناکام رہا۔ گزشتہ ہفتے کے دن ہونے والے عام انتخابات کے شفاف ہونے کا اندازہ آپ پہلے سرکاری نتیجے کے اعلان کے متعلق کی جانے والی اس پریس کانفرنس سے لگا سکتے ہیں جس کے دوران بار بار الیکشن کمیشن کی طرف سے کراچی میں شفاف انتخابات منعقد کرانے میں ناکامی کے اعتراف سے متعلق صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینے کے بجائے اپنے عملے کی طرف سے ان کے کان میں کھسر پھسر کرنے پر فخرو بھائی سوالات و جوابات کو ہی گول کرگئے۔
بہرحال ان انتخابات کے نتائج سے قطع نظر ایک بات واضح ابھر کر سامنے آئی ہے کہ جہاں ان انتخابات نے بندوق پر بیلٹ پیپر کی سبقت ثابت کی ہے وہاں وفاق کی وحدت کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ڈال دیا ہے۔ اب بعد از عام انتخابات2013ء میں حصہ لینے والی بڑی پارٹیوں میں کوئی بھی پارٹی وفاق کی علامت نہیں رہی بلکہ اپنی اپنی حمایت کے مراکز کے حوالوں سے صوبوں کی پارٹیاں بنتی نظر آتی ہیں۔ متحدہ کے سربراہ الطاف حسین جب واضح اور بھرپور اکثریت سے پنجاب سے جیت کر آنے والی پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز شریف کو، اس کے سربراہ کو ان کی انتخابی جیت پر مبارکباد کے موقع پر پنجابیوں کی پارٹی قرار دیتے ہیں تو اس میں کوئی زیادہ مبالغہ آرائی بھی نہیں۔ الطاف حسین کے ایسے یا اس کے بعد اسی حوالے سے آنے والے دیگر بیانات کو غصے یا مذاق میں لینے کے بجائے سنجیدگی اور تشویش سے لینے کی ضرورت ہے کہ آخرکار یہ اس پارٹی کے سربراہ کا بیان ہے جس پارٹی نے عوامی نیشنل پارٹی کے بعد دوسرے نمبر پر اپنے انتخابی جلسوں پر دہشت گرد حملوں میں اپنے امیدواروں اور کارکنوں کی لاشیں اٹھائی ہیں۔
پاکستان میں انتخابات کے پُرامن ہونے یا نہ ہونے کو اصولی وحقیقی طرح اس دن سے دیکھا جائے جس دن سے طالبان جیسے دہشت گرد گروپ نے پاکستان کی کل کے انتخابات تک تین بڑی پارٹیوں عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی انتخابی ریلیوں کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا اور متواتر طالبان نشانہ بناتے اور اس کی ذمہ داری قبول کرتے رہے۔ طالبان کی دھمکی جاری ہونے والے دن سے لیکر ہفتہ 13مئی کو ہونے والے انتخابات کی صبح تک انتخابات سے متعلق تشدد میں ایک سو گیارہ افراد ہلاک ہوچکے تھے، تو پھر ایسے خونی انتخابات کو پُرامن کیسے کہا جا سکتا ہے۔ قبل از انتخابات دھاندلیاں اس دفعہ کمپیوٹروں اور ایوان صدر میں خفیہ سیل قائم کرنے کے بجائے کھلے میدان میں بتا کر کی گئیں، دھماکوں اور گولیوں کی گونج میں کی گئیں۔ بقول میرے دوست تجزیہ نگار اور مایہ ناز لکھاری محمد حنیف کے یہ ایسے تھا جیسے کسی میراتھن ریس کی اسٹارٹنگ یا شروعاتی لائن پر میراتھن شروع کرنے کے وقت ہوا میں پستول داغنے کے بجائے سیدھی گولیاں کھلاڑیوں کی ٹانگوں میں ماری جائیں اور پھر ان لوگوں کو دوڑنے کو کہا جائے جو زخمی ہیں۔
2013ء کے انتخابات کے دوران بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ مانا کہ عوامی نیشنل پارٹی کی کارگردگی خیبر پختونخوا میں سابقہ پانچ سال کے دوران کوئی اچھی نہیں تھی اور نہ ہی کرپشن میں وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے پیچھے رہے لیکن ان کو انتخابی میدان سے باہر اس طرح رکھا گیا کہ طالبان کی طرف سے آئے دن حملوں کے ڈر اور دہشت سے ان کا بڑا اور دوسرے درجے کا لیڈر تو درکنار عام کارکن اور انتخابی ایجنٹ بھی مہم چلانے کو نکلنے کو تیار نہیں تھا۔ یہ خوف و دہشت خیبر پختونخوا میں پولنگ کے دن پڑنے والے ٹرن آؤٹ اور ووٹوں کی تعداد سے بھی عیاں ہے۔ کیا کسی بھی حملے کے بعد یا پہلے ملزمان یا اس کے منصوبہ سازوں و معاونین کو پکڑنے ان کے کے پیچھے فوج اور پولیس گئی؟ کیا ان پارٹیوں کی انتخابی ریلیوں اور مہم کی سیکورٹی کو ریاست کی طرف سے یقینی بنایا گیا۔ کیا ان پارٹیوں کے عہدیداروں اور امیدواروں سے کبھی پوچھا گیا کہ آخر طالبان کیوں ان پارٹیوں پی ایم ایل ن، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو اپنا ضمانتی سمجھتے ہیں؟
یہ قبل از انتخابات خونی دھاندلیاں تھیں جو غیر ریاستی قوتوں نے کیں اور ریاستی قوتوں نے اپنی آنکھیں دوسری طرف پھیرلی تھیں۔عمران خان کے لفٹر سے گرنے پر تو ان کی ہمدردی والے ووٹ میں اضافہ ہوا لیکن اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے کے باوجود عوامی نیشنل پارٹی کو خیراتی یا چیرٹی ووٹ بھی نصیب نہ ہو سکا۔
یہ الیکشن خون میں ڈوبے ہوئے ووٹوں کے الیکشن ہیں۔ لگتا ہے سندھ کا ووٹ سیلاب کے پانی سے زیادہ اب تک بے نظیر کے قتل پر آنسوؤں میں ڈوبا ہوا ہے۔ تمام پنڈتوں کی پیش گوئیوں کے برعکس سندھیوں کا پی پی پی سے عشق ”یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے کی“ منزل سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کہ پی پی پی کو اپنی سائے میں واپس لایا گیا ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ ایون صدر میں بیٹھے سندھی چانکیہ کے پاس اب کونسی شہ مات باقی رہ جاتی ہے کہ سندھ کارڈ پر ہی گزارہ کیا جائے گا!
لیکن حیرت ہے کہ وہ نبیل گبول جن کا پچھلے دنوں لیاری میں اپنے ہی ووٹروں نے چلنا مشکل کردیا تھا اب متحدہ کے ٹکٹ پر ایک لاکھ سے زائد ووٹ لے کر آئے ہیں۔ اتنی تعداد میں ووٹ پاکستانی کی انتخابی تاریخ میں1970ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں مری کوہلو علاقے سے صرف خیر بخش مری لیکر آئے تھے۔ بلوچستان میں بھی اس دفعہ اس کھیل کے اصلی تے وڈے بازی گروں نے بازی بڑی ہوشیاری سے کھیلی ہے۔ بقول اختر مینگل کے کہ عوام نے انتخابات میں پذیرائی تو دی لیکن نتائج اس کے برعکس تھے۔ او شیر تے مہراں لگ گیاں نیں انتخابات والے دن میرے دوست کو ان کے ایک نواز شریف حامی کارکن نے ٹیلیفون پر بتایا۔تاریخ نے تیسری بار نواز شریف کو آج کے پاکستان کے وزیر اعظم بننے سے لگتا ہے کہ دروازے کھول دیئے ہیں۔ اپنی اس واضح اکثریت کو امید ہے کہ نواز شریف آمرانہ اکثریت میں نہیں بدلے گا جیسا انہوں نے اپنی پچھلی دو حکومتوں کے دوران کیا تھا۔ جہاں طالبان سے پُرامن مذاکرات کا ان کے ارادوں کا اعادہ مایوسی کا پیغام لے آتا ہے وہاں بھارت سے تعلقات میں بہتری لانے کے ان کے بیانات خطے میں امن دوستوں کیلئے بہت بڑی امید افزا نوید لاتے ہیں۔ بھارت سے بہتر تعلقات میں صرف نواز شریف ہی سنجیدہ نظر آسکتا ہے۔ بلوچستان، سندھ اور دیگر صوبوں میں گمشدگیوں اور لاشیں ملنے کی پالیسی بھی ترک کرنا ہوگی۔ امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نکلنے سے زیادہ بلوچوں پر ریاستی دہشت گردی سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا سر کچلنے کی ضرورت ہے۔ میرے ایک دوست نے کہا اب دائیں بائیں کا چکر نہیں اب انتہاپسند دائیں بازو اور معتدل دائیں بازو کے درمیان انتخاب کرنا ہے۔ پاکستان میں طالبان نواز حکومت ہونے کے تصور بنانے سے گریز کرنا ہوگا۔ اگر سابقہ مشرقی پاکستان کے بعد بھی پیئرٹی کا اصول برقرار رکھا جاتا یا آئیں ساز اسمبلی کو مقدم بنا کر باقی ماندہ چاروں صوبوں سے برابری کی بنیاد پر آئین ساز اسمبلی ہوتی تو یہ صورتحال پیش نہ آتی۔ وقت سے فوج اور پی پی پی کے برعکس، نواز شریف نے کیا کچھ سیکھا یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہونا ہے۔ اس دفعہ نمبر گیم یا اعداد کے کھیل ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ میاں صاحب کو عقابوں کی نہیں فاختاؤں کی ضرورت ہونی چاہئے۔ ایسا تاناشاہ بننے سے گریز کرنا چاہئے جو دیر یا سویر۔ پی پی پی کے ساتھ ایم کیو ایم کو بھی پاکستان کھپّے یا نہ کھپّے کے دوراہے پر کھڑا کردے۔ اقتدار کی پُرامن منتقلی ابھی باقی ہے۔ 1971ء ایکشن ری پلے سے گریز کرنا چاہئے۔ فتح کے نشے سے نکل آؤ اور ہنی مون ختم کرلو۔
تازہ ترین