• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الفاظ بوکھلائے ہوئے بولنے والوں کا منہ تکتے رہتے ہیں۔ معانی دربدر ہیں۔ بے معنی گفتگو وائرل ہورہی ہے۔ بڑے چھوٹے مہمل اظہاریوں میں مزے لیتے ہیں۔ تاریخ سے سبق سیکھنا ناگوار سمجھا جاتا ہے۔ اپنے تجربات اپنے مشاہدات بھی قابل توجہ نہیں رہے۔ ٹیکنالوجی جدید ترین اور تیز تر ہے۔ ہمارے رویے قدیم ترین رفتار سست تر ۔ نتیجہ :سماج معلق ہوگیا ہے۔ کمپیوٹر کی زبان میں پاکستانی معاشرہ فی الحال Hang ہوا ہے۔ اکثریت اسے اپنا مقدر خیال کر بیٹھی ہے۔وزیر اعظم عمران خان کو پی ڈی ایم کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کا وینٹی لیٹر ہٹاکر انہیں 31جنوری تک مہلت دے دی ہے۔حالانکہ وہ کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کا ایک لمحہ بھی حکومت میںرہنا ملک کے لیے خطرناک ہے۔ یہ 48دن یقیناً تاریخ ساز ہوسکتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے لیے بھی۔ مگر عمران خان زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ پی ڈی ایم ان دنوں چھوٹی چھوٹی ریلیاں کرکے ٹیمپو برقرار رکھنا چاہے گی۔ لیکن تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ لاہور کے جلسے نے ملتان سے بڑھنے والا ٹیمپو توڑ دیا ہے۔ پی ڈی ایم کے ساتھ وہی ہوا ہے جو عمران خان کے ساتھ ہوا۔ عمران نے ارضی حقائق سامنے رکھے بغیر 2013 سے 2018کے درمیان کتنے بلند بانگ دعوے کیے توقعات بڑھائیں۔ اب جب حقیقتیں سامنے آئیں تو ساری توقعات پر پانی پھر گیا۔ لوگ اتنے ہی زیادہ مایوس ہونے لگے۔ مریم نواز صاحبہ نے لاہور جلسے سے متعلق جتنی امیدیں بڑھائیں آر یا پار۔ عمران خان استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجائے گا ۔ کٹھ پتلی حکومت چلی جائے گی۔ جلسہ توقعات سے بہت کم نکلا۔ لوگ کورونا کی وجہ سے نہیں آئے یا کوئی اور سبب تھا۔ حکومت نے کنٹینر لگائے نہ بسیں روکیں۔ لاہور والے بڑی تعداد میں آسکتے تھے۔ دوسرے شہروں صوبوں سے بھی لوگ آئے۔ اسٹیج سے اعلان ہوتا رہا۔ پورے ملک سے شرکاء کے باوجود جلسہ گاہ بھر نہ سکی۔ پی ڈی ایم کی رکن پی پی پی کے رہنما اورسندھ حکومت کے وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ شرکا لاکھ سے زیادہ تھے۔ جبکہ مریم نواز لاکھوں کہہ رہی ہیں۔ لاکھو ںجلسہ گاہ میں ۔ لاکھوں جلسہ گاہ کے پیچھے۔ لاکھوں سڑکوں پر یہ کیفیت لائق مطالعہ ہے۔ پی ڈی ایم والے اپنے آپ کو یقین دلارہے ہیں کہ جلسہ بہت کامیاب تھا۔ حکومت والے اپنے آپ کو باور کروارہے ہیں جلسہ بالکل ناکام تھا۔ کوئی بھی اپنی خامیوں ۔ غلطیوں پر نظر ڈالنا نہیں چاہتا۔

حکومت یا اپوزیشن دونوں کرنے کے کام نہیں کررہی ہیں۔ ملک میں انتشار اور افراتفری ختم کرکے استحکام لانا اولین ضرورت ہے۔ شہر قصبے۔ گائوں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ایک ایسا سسٹم درکار ہے جس سے لوگوں کی زندگیاں آسان ہوں۔ ضرورتیں قاعدے سے پوری ہوں۔

میرا مشاہدہ ہے کئی دہائیوں سے۔ کہ عوام ہمارے حکمران طبقوں سے کہیں زیادہ باشعور ۔ صابر۔ شاکر اور منظّم ہیں۔ انہیں جب بھی آزادانہ منصفانہ انتخاب کا موقع دیا گیا ہے اور سامنے امیدوار بھی اس قابل ہوئے ہیں تو انہوں نے عوام کا درد رکھنے والوں کو ووٹ دیئے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن تو دل سے چاہتی ہے کہ انارکی ہو۔ یہ اصلی اپوزیشن نہیںہے۔ یہ مسلسل برسر اقتدار رہنے کے خواہش مند لوگ ہیں۔ جو اس بار کرسی سے محروم رہے ہیں۔ اپوزیشن میں بھی ہوتے تھے تو ساری مراعات اور اختیارات میسر ہوتے تھے۔ پہلی بار ان رعایتوں سے دور ہیں۔ اس لیے وہ کھیلنا چاہتے ہیں۔ نہ کھیلنے دینا چاہتے ہیں۔ حکومت اچھے کام کررہی ہے۔ ان کے ثمرات عوام تک پہنچانے کی بجائے اس نے اپوزیشن کے الزامات کا جواب دینے کو ہی حکومت سمجھ لیا ہے۔ وہ دن بھر اپنے ترجمانوں کے ذریعے انتشار میں مزید اضافہ کرتی ہے۔

ایسے میں کرنا کیا چاہئے؟ عوام اپنی طاقت کو خود سنبھالیں ۔ اب کسی پارٹی کو اپنا کندھا استعمال نہ کرنے دیں۔ مہنگائی کے طوفان کو روکا جاسکتا ہے۔ مہذب معاشرے ایسا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اپنے اپنے محلے کی سطح پر مشاورت کریں۔ مسائل کا ادراک کریں۔ مسجدیں ایسی مشاورت کے لیے انتہائی موزوں رہ سکتی ہیں۔ دو تین گلیاں مل کر ایک گروپ بنائیں۔ اشیائے ضروریہ مل جل کر سبزی منڈی غلہ منڈی سے خریدیں پھر آکر محلے کے مکانوں کی تعداد کے مطابق بانٹیں۔ مالی طور پر بہت فرق پڑے گا۔ گوشت وغیرہ بھی اجتماعی طور پر سستا کیا جاسکتا ہے۔ جانور خریدیں۔ خود ذبح کریں۔ خود حصّے بنائیں۔ دکانداروں۔ سپر اسٹوروں کی ہوس منافع کو اس طرح پسپا کیا جاسکتا ہے۔ منافع خور اپنے لالچ کے لیے چھوٹی دکانوں کی بجائے سپر مارکیٹیں ۔ سپر اسٹور۔ آن لائن خریداری کے حربے استعمال کررہے ہیں۔ آپ اپنے اتحاد اور یکجہتی سے اسکی مزاحمت کریں۔

وہ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ جدید ٹیکنالوجی آپ کے کام بھی آسکتی ہے۔ واٹس ایپ گروپ بنائیں۔ ان محلوں میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین۔ پروفیسرز۔ سیکرٹری۔ فوجی رہتے ہیں۔ ان کے تجربات سے مشکل آسان کی جاسکتی ہے۔ جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے ایک درد مند پاکستانی سید ارتقا احمد زیدی جو صاحب کتاب بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کسی طرح بھی سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ معاشی سوال ہے۔ رسد اور طلب کا معاملہ ہے۔ اس کا حل پہلے راشن کارڈ کی صورت میں نکالا جاتا تھا۔ 70کی دہائی کے بعد یوٹیلیٹی اسٹور کا سلسلہ لایا گیا۔ شروع میں یوٹیلٹی کارڈ بھی تھے اور ایک مقررہ حد تک ہر شے خریدی جاسکتی تھی۔ یوٹیلٹی اسٹورز کو اعانت کے لیے رقم بھی دی جاتی تھی۔ لیکن سسٹم بگاڑ دیا گیا۔ دکاندار بھی یوٹیلٹی اسٹورز سے سامان خریدتے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز کے ملازمین۔ افسر سب اس کے اصل مقصد کی ہلاکت میں شامل ہیں۔ یوٹیلٹی کارڈ کو بحال کیا جائے۔ صرف اپنے خاندان کی تعداد کی ضرورت کے مطابق چیزیں خریدنے دی جائیں ۔ میرے خیال میں یہ بالکل مناسب تجویز ہے۔

حکومت نے کم آمدنی والے افراد کے لیے جیسے لاکھوں گھروں کی لائق تحسین اسکیم شروع کی ہے۔ اس طرح کم آمدنی والے پاکستانیوں کی روز مرہ ضرورت کی اشیا کی سستی فراہمی کے لیے بھی فوری طور پر یہ سلسلہ منظّم کریں۔ 48دن میں عمران خان اگر یہ کام کرلیں۔ پھر پی ڈی ایم کی فرمائش پوری کرکے اگر استعفیٰ دینا بھی چاہیں تو عوام اس استعفے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں گے۔

تازہ ترین