• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری برادران کی خوبی یہ ہے کہ وہ بُرے سے بُرے سیاسی حالات میں بھی اپنا راستہ خود تلاش کر لیتے ہیں اور اچھے بچوں کی طرح گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی وقت کھیل کود میں ضائع کرنے کی بجائے بڑی سنجیدگی سے ہوم ورک مکمل رکھتے ہیں کہ جب کورونا وبا کے بعد نئے ایس او پیز کے تحت اسکول کھلیں گے تو کلاس ماسٹر کے سامنے کبھی شرمندگی کا سامنا نہ ہو۔ چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کی سیاسی میراث کو جس وضع داری، رکھ رکھاؤ سے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے سنبھال رکھا ہے، یہ وصف کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ یہی کرشمہ سازی ہے کہ بڑے بڑے سیاسی بحرانوں میں آمروں سے لے کر جمہوریت کے پاٹے خانوں تک نے اِنہی کے گھر کی راہ لی۔ یہ الگ بات ہے کہ شریف برادران کا ساتھ ہو یا لال مسجد جیسا سنگین مذہبی معاملہ، اکبر بگٹی مرحوم کے معاملے میں پرویز مشرف کی آشیرباد سے مذاکرات کی آخری کوششیں ہوں یا پھر بڑے مولانا صاحب کا اسلام آباد میں گزشتہ پڑاؤ، قدر دانوں نے وقتی طور پر ایسے بحرانوں کو ٹالنے کی خاطر اِنہی دو بھائیوں کا کندھا تو استعمال کیا لیکن درونِ خانہ ہونے والے وعدوں، معاہدوں کی کبھی پاسداری نہیں کی۔ سمندر جیسا گہرا دل و دماغ رکھنے والے اگر دل کے راز زبان پر لے آئیں تو بڑے ایوانوں میں بھونچال آجائے۔ سچ تو یہ ہے کہ قدر دانوں نے اُنہیں ہمیشہ بی ٹیم میں ہی کھیلنے کا موقع دیا۔ اے ٹیم میں شمولیت کی آخری کوشش زرداری دور حکومت میں کی گئی جب چوہدری پرویز الٰہی کو بطور نائب وزیراعظم سامنے لایا گیا۔ اُن کی انتظامی و سیاسی صلاحیتوں کو آزادانہ طور پر صرف پنجاب میں بطور وزیراعلیٰ آزمانے کی ایک ہی کوشش کی گئی جسے اُنہوں نے احسن انداز میں نبھایا۔ چوہدری برادران ایسے بادشاہ گرسیاسی مہرے ہیں جن کی شہ مات سے ہر حکمران خوف زدہ رہتا ہے اور قطعی طور پر اِس مہرے کو طاقت ور نہیں بننے دیتا۔ ہمارے بڑے خان صاحب کی بھی یہی مجبوری ہے کہ بھان متی کے کنبے پر تو تکیہ کئے بیٹھے ہیں لیکن اپنے طاقت ور حقیقی اتحادیوں کو طاقت ور ہوتے دیکھنا اُنہیں کسی صورت قبول نہیں۔ انہیں یہی خوف کھائے جارہا ہے کہ چوہدری برادران موجودہ بحرانی دور میں بھی پنجاب کی سطح پر ق لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ خاموشی سے منظم کئے جارہے ہیں اور اُن کا پہلا ٹارگٹ بلدیاتی انتخابات ہیں جن میں وہ اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی سوچ رکھتے ہیں اور یہ ”واردات“ وسیم اکرم پلس کی سیاسی کار گزاری، تحریک انصاف کی تنظیم سازی، بلدیاتی انتخابات کی تیاری کو صفر جمع صفر تو کر ہی رہی ہے اور کپتان کی پریشانی اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کے علاوہ اِس لئے بھی بڑھتی جارہی ہے کہ اگر وہ اپوزیشن کے گیارہ جماعتی اتحاد کو سیاسی طور پر کوئی جھٹکا دینا بھی چاہیں تو آخری حربے کے طور پر بلدیاتی انتخابات ڈوبتی کشتی کو کچھ سہارا دے سکتے ہیں، رکاوٹ یہی ہے کہ وسیم اکرم پلس (ن) لیگ کے اراکینِ اسمبلی کو توڑنے کی کوششوں میں تو لگے رہتے ہیں لیکن تحریک انصاف کے کمزور ترین تنظیمی ڈھانچے کو مقامی سطح پر مضبوط کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے۔ موجودہ حالات کپتان کو یہ اجازت بھی نہیں دیتے کہ عام انتخابات کے مطالبے کا دباؤ کم کرنے کے لئے پنجاب میں فوری بلدیاتی انتخابات کا اعلان بھی کر سکیں۔ آج کے بحرانی حالات میں کپتان نے ایک بار پھر چوہدری برادران کی خدمات اور صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کے بجائے ٹیم کا بیٹنگ آرڈر ہی تبدیل کرنے پر گزارا کیا ہے۔ اگرچہ ضرورت کے مطابق یہ معمول کی انتظامی کارروائی ہی قرار دی جا سکتی ہے لیکن پی ڈی ایم کے لاہور جلسے سے صرف دو روز قبل سب سے بڑی تبدیلی بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ سے اچانک وزارتِ داخلہ کا قلم دان واپس لے کر پنڈی بوائے شیخو بابا کو سونپنا ہے۔ شیخو بابا مزے سے آئے روز نت نئی ریل گاڑیاں چلا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ حکومتی ترجمان کا بھرپور کردار بھی نبھا رہے تھے۔ ننکانہ صاحب کے شاہ صاحب پرویز مشرف ٹیم کے طاقت ور ترین رکن تصور کئے جاتے تھے۔ پرویز مشرف کی تمام تر داخلی و سیاسی جارحانہ حکمت عملی پر عمل درآمد اُنہی کی ذمہ داری تھی۔ موجودہ دور میں اُن کی تقرری مشرف دور کا تسلسل قرار دی جارہی تھی۔ یہ تاثر عام تھا کہ اُنہیں پنجاب میں ن لیگ کو رگڑا لگانے، وسیم اکرم پلس کو انتظامی سطح پر مضبوط کرنے کے لئے لایا گیا تھا۔ پی ڈی ایم کے لاہور جلسہ سے قبل شاہ صاحب کی آمد و جامد دونوں ہی حیران کن ہیں۔ شنید ہے شاہ صاحب پر بزدار سرکار کا سایہ پڑ گیا ہے اور اے این پی کے معزز رہنماؤں کو دی گئی دھمکی پر اُن کی آہ لگ گئی ہے۔ ”لولی بوائے“ سے ”پنڈی بوائے“ کی تبدیلی؟ بات کچھ سمجھ نہیں آتی کہ آخر یہ ادل بدل کس حکمت عملی کا نتیجہ ہے اور انسداد منشیات کی وزارت میں شاہ صاحب کیا بہتری لائیں گے؟ اِن سوالات کے جواب تو ابھی آنا باقی ہیں۔ بظاہر پنڈی بوائے کو وزارتِ داخلہ کی ون ڈاؤن پوزیشن پر کھلانے کا فیصلہ کپتان کی ایک قدم پیچھے (بیک فٹ پر) ہٹ کر کھیلنے کی دفاعی حکمت عملی تو ہو سکتی ہے لیکن مریم نواز بلاول بھٹو کی جاتی امرا میں تعزیتی ملاقات کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے بڑے مولانا صاحب کے ہاتھ پر باقاعدہ بیعت کرکے مستقبل کے خوابوں کی تعبیر کے لئے حکومت پر فاتحہ پڑھ لی ہے اور اب بات پنڈی بوائے سے آگے نکل چکی ہے۔ وزارتِ داخلہ داخلی سلامتی کی وزارت ضرور ہے لیکن سیاسی سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے دالانوں پر اوس پڑ چکی ہے۔ سبزہ زاروں میں خزاں کے رنگ نمایاں ہو رہے ہیں۔ کھلے پھول مرجھائے نظر آتے ہیں۔ اب نہ وہ رونقیں ہیں، نہ اعتماد میں گھن گرج۔ بس اپیل پر اپیل ہی کی جارہی ہےکہ ”کورونا وبا“ خطرناک صورت اختیار کر چکی، ذرا احتیاط کیجئے، نیشنل ڈائیلاگ کی طرف آئیے لیکن جواب ندارد۔

تازہ ترین