• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ (ن) کی واضح کامیابی اور برتری نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ اگر حکومت عوام کے مسائل کو 100 فیصدحل نہ بھی کر پائے۔لیکن اس کی سچے دل سے کوششوں کو بھی سراہا جاتا ہے۔ میاں شہباز شریف نے اپنے دور اقتدار میں اسٹوڈنٹس کے لئے جو گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں وہ ہمیشہ سیاست کی تاریخ میں سنہری حروف کے ساتھ لکھی جائیں گی۔ مثلاً لیب ٹاپ، اجالاپروگرام، دانش اسکولز، بورڈز اور یونیورسٹیوں کے امتحانات میں پوزیشنیں ہولڈرز کو انعامات، دوسرے ممالک اور پاکستان کی سیر، یہ اب سے پہلے کسی صوبے کے وزیراعلیٰ نے نہیں کیا تھا۔ جبکہ باقی تینوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کے پاس بھی وہی اختیارات اور کام کرنے کی آزادی تھی۔ سندھ میں تو ویسے بھی پی پی پی کے وزیراعلیٰ تھے۔ میاں شہباز نے دوسرے صوبوں حتی گلگت، بلوچستان اور کشمیر کے پوزیشن ہولڈرز کو بھی انعامات دیئے۔ اپنے الطاف بھائی نے مسلم لیگ (ن) کی کامیابی پر ایک بیان داغا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو الیکشن میں کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ پنجاب سے پنجابیوں کی نمائندہ جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2013ء کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ اور نواز شریف پنجابیوں کے مستند لیڈر قرار پائے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے الطاف حسین کے ان کلمات کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اگر (ن) لیگ پنجابیوں کی جماعت ہے تو (ق) لیگ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیوں آپ جماعتوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کررہے ہیں۔ اپنے پیارے الطاف بھائی اگر برا نہ منائیں تو ان کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) قومی جماعت نہیں تو پھر کون سی جماعت قومی ہے؟ اگر وہ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں اس قسم کے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں تو دوسرے بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایم کیو ایم کون سی قومی جماعت ہے؟ وہ بھی مخصوص ایک طبقے اور صوبے کی جماعت ہے جن جماعتوں نے ان انتخابات میں چاروں صوبوں میں نمائندے کھڑے کئے۔ وہ تمام قومی جماعتیں ہیں۔ ہم تو ایم کیو ایم کو بھی قومی جماعت ہی کہتے ہیں۔ لہٰذا کسی جماعت کو علاقائی جماعت بنانے کی روایت سے گریز کرنا چاہئے۔ ماضی میں ہم پی پی پی اور عوامی لیگ کو دو صوبوں کی علاقائی جماعت بنانے کا خمیازہ بھگت چکے ہیں۔
بہرحال آنے والے سیاسی حالات اور صورت حال پر بہتر تجزیہ تو ہمارے سیاسی تجزیہ نگار سہیل وڑائچ، حامد میر، افتخار احمد اور انور قدوائی ہی کرسکتے ہیں۔ ہم تو ان انتخابات کے دوران اس حوالے سے بات کریں گے کہ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈران واقعی بہت امیر ہیں اور جس طرح پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا ہے۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ کے کسی انتخابات میں اس قدر پیسے خرچ نہیں کیے گئے۔ اگرچہ پی پی نے اپنی اشتہاری مہم میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے بہترین خدمات سرانجام دیں اور مستقبل کے نوجوان لیڈر بلاول نے بھی جذباتی تقریر ضرور کی مگر اس کا اثر بھی نہ ہوا۔ یہاں تک کہا گیا کہ ہم اقتدار میں آکر غریب عوام کا وظیفہ ایک ہزار سے دو ہزار کردیں گے۔ بھلا کوئی پوچھے دو ہزار روپے میں تو اب ایک طالب علم کا گزارہ نہیں ہوتا کہاں چار چھ بچوں کے خاندان کی کفالت ان دو ہزار روپوں سے ہوگی۔ بابا رحمان ملک نے بھی ان دنوں بہت زور لگایا مگر اثر پھر بھی نہیں ہوا۔۔ انہی دنوں ایک دلچسپ اشتہار شائع ہوا۔ جس میں منور حسن 69 سال، نواز شریف 63 سال اور عمران خان 60 سال ان کی تصاویر کے ساتھ عمریں لکھی ہوئی تھیں اور ساتھ ہی بلاول کی تصویر کے ساتھ اس کی عمر 24 برس لکھی ہوئی تھی۔ اشتہار کا مطلب یہ تھا کہ اب اس ملک کو صرف اور صرف نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ کسی تجربے، کسی دانش مندی اور فہم و فراست کی ضرورت نہیں۔
تھوڑا سا تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح  نے جب 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان پیش کی تو اس وقت ان کی عمر 64 برس تھی۔ قائداعظم  1876ء اور شاعر مشرق علامہ اقبال 1877ء کو پیدا ہوئے تھے۔ تحریک پاکستان کے تقریباً تمام اکابرین اور رہنماؤں کی عمریں 50 سے 70 برس کے درمیان تھیں۔ تو کیا ان بزرگوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندگی صحیح اور انتہائی بہتر انداز میں نہیں کی؟ کیا ان لوگوں نے جن کی عمریں پچاس برس سے ہر صورت زیادہ تھیں۔ تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار نہ کیا؟ کیا انہوں نے انگریزوں، ہندوؤں، سکھوں اور نیشنلسٹ مسلمانوں کا مقابلہ دانش مندی سے نہیں کیا؟ کیا علامہ اقبال ، مولانا ظفر علی خان، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، نواب بہادر یار جنگ، عبدالرب نشتر اور لیاقت علی خاں بیس سال کے نوجوان تھے۔
اس طرح جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم بنے تھے تو کیا اس وقت ان کی عمر 23 برس تھی؟ وہ 45 برس میں اس ملک کے وزیراعظم بنے تھے۔ تجربہ ہمیشہ عمر کے ساتھ ساتھ آتا ہے۔ آقائے دو جہان آنحضور تو پیدائشی نبی تھے۔ لیکن نبوت ان کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک نے 40 برس کی عمر میں عطا فرمائی تھی۔
آج اگر اس ملک میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ صرف نوجوان قیادت ہی ملک میں انقلاب لائے گی۔ ہمارے نزدیک کچھ اتنا درست نہیں۔ تحریک پاکستان میں نوجوانوں کی قیادت کس نے کی تھی؟ قائداعظم اور علامہ اقبال  جنہوں نے اپنی تقریروں اور اپنی شاعری سے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ اگر لیڈر اور کپتان اچھا ہو تو قوم اور کھلاڑی اچھا کھیلتے ہیں۔ ان انتخابات میں سب سے زیادہ جوش اور ولولہ نوجوانوں میں دیکھنے کو آیا۔ ان نوجوانوں کے اندر جوش و ولولہ عمران خان اور شہباز شریف نے پیدا کیا۔ عمران خان نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے کر ثابت کیا کہ عوام کسی خوش گوار ہوا کے جھونکے کے منتظر ہیں۔آج یہ کہا جائے کہ اس اشتہار کے بقول کہ بڑی عمر کے لوگوں نے سیاست کیا کرنی ہے؟ تو پی پی پی میں کئی لیڈران کی عمریں 50 اور 70 برس کے درمیان تھیں۔ پھر انہیں بھی انتخابات میں حصہ نہ لینے دیا جاتا۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ اس جماعت نے اپنے انتہائی سینئر اور بانی ممبران کے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا تھا۔ مثلاً جے اے رحیم، عبدالحفیظ پیرزادہ، ممتاز بھٹو، مصطفے جتوئی، ڈاکٹر مبشر حسن، تاج محمد لنگاہ، کوثر علی شاہ، جہانگیر بدر اور عبدالقادر شاہین کی کون سی قدر کی تھی؟ اب بے چارے ایک ڈاکٹر مبشر حسن ہی رہ گئے ہیں۔ کیا ملک کے موجودہ صدر 25 برس کے ہیں۔ اور کیا نگران وزیراعظم بیس سال کے نوجوان ہیں۔ الیکشن کمشنر فخرو بھائی نے اس عمر میں بھی بڑی حد تک شفاف انتخابات کرا ڈالے۔
اب جبکہ مسلم لیگ (ن) پہلے نمبر اور تحریک انصاف دوسرے نمبر پر آ ہی چکی ہیں۔ تو نواز شریف نے اپنی تقریر میں نوجوانوں کے روزگار اورہ بہتر مستقبل کے لئے جو وعدے کئے ہیں انہیں پورے کرنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی ابھی سے کریں اور کوئی ایسا سیل بنائیں جو نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبہ سازی کرے۔ میاں شہباز شریف اور نواز شریف کو اللہ تعالیٰ نے ایک موقعہ پھر دیا ہے اور سید سرفراز اے شاہ صاحب کی دعائیں بھی رنگ لائیں۔ میاں شہباز شریف کو چاہیے بطور وزیراعلیٰ جو کام انہوں نے انتخابات سے قبل جاری رکھے ہوئے تھے۔ وہ دوبارہ وزیراعلیٰ بن کر انہیں جلد مکمل کرائیں۔
بجلی کا بحران بڑھ گیا ہے اس کے لیے بڑے پیمانے پر کام کرنا ہوگا اور شہباز شریف وزیربجلی سے زیادہ صوبے کے لیے زیادہ مفید کام کرسکتے ہیں۔ اب مسلم لیگ (ن) کو صحت اور تعلیم کے شعبوں کے مسائل کو حل کرنے اور ان کو ترقی دینے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں نے جس قدر قم پبلسٹی پر خرچ کی۔ اس کی نصف اگر وہ صحت اور تعمیر پر خرچ کردیں تو مناسب ہوتا۔ پڑھا لکھا پنجاب کی پبلسٹی پر چوہدری صاحبان نے جو کروڑوں روپے ضائع کر دیئے اگر وہ یہ رقم سکولوں کی بہتری کے لیے خرچ کرتے تو آج دو چار سیٹیں وہ بھی حاصل کرلیتے۔ ایک خاندانی نشست پر اتنے خوش نہ ہوں۔
اپنے الطاف بھائی سے اور دیگر جماعتوں سے عرض ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو دل سے تسلیم کریں اور اس ملک میں جمہوریت کے سفر کو خوشگوار انداز میں شروع کریں۔ اور اب یقینا ہمیں ان لوگوں سے نجات مل جائے گی جن کے بارے میں جگر مراد آبادی نے کچھ یوں کہا تھا
دیس کے اپنے کرتا دھرتا اکثر ہیں وہ لوگ
دل ہیں جن کے کنکر پتھر، فطرت جن کی گھاگ
کوچے کوچے، گوشے گوشے لوٹ مچی ہے لوٹ
جنگل جنگل، بستی بستی آگ لگی ہے آگ
آخر میں اس دعا کے ساتھ کہ جو لوگ اس ملک کا برا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں اور ان کو کبھی سکون نہ دے۔ وہ خود برباد ہو جائیں۔
الطاف بھائی کراچی کو علیحدہ کرنے کی بات نہ کریں۔آپ اور آپ کی طرح کے بہت سارے سیاست دانوں کے پاس باہر کی قومیت ہے۔ میرے جیسے کروڑوں پاکستانیوں کے پاس صرف یہ ملک ہے۔
تازہ ترین