• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاعلاج مریض کو تکلیف سے نجات دینے کے لیے موت کا انجکشن لگانا جائز نہیں (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب قیامت کے دن (دنیا میں)مصیبتیں برداشت کرنے والے لوگوں کو (اُن کے صبر پر) ثواب عطا کیاجائے گا تو (دنیا میں)عافیت میں زندگی گزارنے والے اس وقت تمنا کریں گے: کاش! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھالیں کاٹ دی گئی ہوتیں (اور وہ آج اس کا اجر پاتے)، (سنن ترمذی:2402)‘‘۔

ایسا مُہلک مرض جس کی بابت ماہر طبیب یہ کہے کہ مریض کی صحت مند بحالی کے ظاہری امکانات معدوم ہیں ،اُسے زبردستی اذیت دے کر وینٹی لیٹر یا طبی مشینوں کے ذریعے زندہ رکھا جائے ،اسلام اس کا مکلف نہیں بناتا۔یہ بھی آخری درجے کے مریض کے لیے انتہائی کرب کے لمحات ہوتے ہیں،آلات پر صرف اس صورت میں زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے، جب کہ بظاہراُس کے بچنے اورمفید زندگی گزارنے کے امکانات ظنِ غالب یا ظنِ محض کے درجے میں ہوں، ایسے مرحلے پر ماہر ڈاکٹر کی رائے کا اعتبار ہوگا، لیکن محض اسپتالوں کا بل بنانے کے لیے مریض کو کرب میں مبتلا کرنا شریعت کا مطلوب نہیں ہے۔

لیکن اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ ماہر ڈاکٹر کی رائے کے مطابق جس مریض کے بظاہر بچنے کے امکانات معدوم ہیں،کوئی زہریلا انجکشن لگاکر یا کسی کیمیکل طریقے سے تکلیف میں مبتلا اُس مریض کی موت کو آسان بنا دیا جائے ، خواہ اس میں اُس کی اپنی اور اس کے قانونی ورثا کی رضا مندی بھی شامل ہو۔ہر شخص جانتا ہے کہ حیات وموت کا قطعی علم اللہ کے پاس ہے ،انسان نیک نیتی سے اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں قیاسات اور ظنیات پر رائے قائم کرسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1)’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک، اللہ تم پر نہایت مہربان ہے، (سورۃ النساء:29)‘‘(2):’’ اور اپنے ہاتھوں آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ،(سورۃ البقرہ:195)‘‘۔ اسلام میں مطلقاً موت کی تمنا کرنا بھی منع ہے،نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کے پہنچنے کے سبب موت کی تمنا نہ کرے اور اگر وہ ضرور ایسا کرنا ہی چاہتا ہے تو یہ کہے: اے اللہ!(تیرے علم کے مطابق )اگر میرے لیے حیات بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ اوراگر(تیرے علم کے مطابق) وفات میرے لیے بہتر ہو تو مجھے وفات عطا کر،(صحیح البخاری:5671)‘‘۔یعنی یہ فیصلہ خود نہ کرے بلکہ اپنے آپ کو تقدیر الٰہی کے سپرد کردے ۔

احادیثِ مبارکہ میں ہے:(1)’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو آہنی ہتھیار سے قتل کیا ،تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا ، وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور وہ ہتھیار اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گااور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیا ، تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور زہر پیتا رہے گا اور جس نے کسی پہاڑ سے گر کر اپنے آپ کو ہلاک کیا تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور (جہنم کی وادیوں میں) لڑھکتا چلا جائے گا،(صحیح مسلم:109)‘‘۔یعنی خود کشی اور اپنے آپ کو ہلاک کرناحرام فعل ہے اور اس پر آخرت میں سزا ہے ، کیونکہ انسان اپنی جان کا مالک نہیں ہے ۔

(2)’’حضرت جابرؓایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں: جب نبی اکرمﷺ نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو آپﷺ کے ساتھ حضرت طفیل بن عمرو دَوسیؓ اور اُن کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی ، اس شخص کو مدینے کی آب وہوا راس نہ آئی ،سو وہ بیمار ہوگیااور فریاد کرنے لگا۔پس (تکلیف سے بے قابو ہوکر )اس نے چوڑے پھل کا ایک تیر لیا اور اپنی انگلیوں کو جوڑوں سے کاٹ دیااور اس کے ہاتھوں سے خون بہتا رہا، یہاں تک کہ (خون کی کمی کے سبب )وہ فوت ہوگیا۔ پھر اسے طفیل بن عَمرو نے اپنے خواب میں اچھی حالت میں دیکھا ۔انہوں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں پر ڈاٹا بندھا ہوا ہے ، طفیل نے اس سے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

اس نے جواب دیا: نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہجرت کی برکت سے اللہ نے مجھے بخش دیا ۔پھر انہوں نے پوچھا: یہ آپ کے ہاتھوں پر ڈاٹا بندھا ہوا میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ اس نے جواب دیا: مجھے فرمایا گیا: جس چیز کو تم نے خود بگاڑا ہے ،ہم اُسے ہرگز درست نہیں کریں گے ، پس جب طفیل نے یہ خواب رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کی خطا کو بھی بخش دے، (صحیح مسلم:116)‘‘۔صحابہ ٔ کرامؓ خوش نصیب تھے کہ اُن کی مشکل آسان کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ اُن کے درمیان موجود تھے ، ہم صرف شرعی احکام پر سختی سے عمل کرنے کے پابند ہیں۔

تازہ ترین