• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج جب کہ اتوار کو میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو دوپہر تک یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پی ایم ایل (ن) قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور اگر چاہے تو اکیلے حکومت بنا سکتی ہے۔ اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان کے نئے وزیراعظم میاں نواز شریف ہیں۔ ان انتخابات میں جو دو اور اہم نتائج نکلے ہیں وہ یہ ہیں کہ کرکٹ کے ممتاز کھلاڑی عمران خان کی زیر قیادت تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کر لی ہے اور اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی اس صوبے میں کسی اور پارٹی سے مل کے حکومت بنا لے۔ دوسری طرف پی پی پنجاب اور کے پی صوبے سے اڑ گئی ہے۔ بہرحال سندھ میں وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پی پی سندھ میں بھی اصل ٹارگٹ حاصل نہ کر سکی۔ مثال کے طور پر پی پی کو شکارپور ضلع میں شکارپور کی نشست جس سے اب تک پی پی کے سینئر رہنما آفتاب شعبان میرانی کامیاب ہوتے رہے ہیں اس بار گنوا بیٹھی ہے۔ سیاسی مبصرین جائزہ لے رہے ہیں کہ تحریک انصاف اور پی ایم ایل (ن) کی اتنی بڑی کامیابی اور پی پی اور اے این پی کی اتنی بڑی شکست کے کیا اسباب ہیں۔ اکثر سیاسی مبصرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پی ایم ایل (ن) اور تحریک انصاف کی اتنی بڑی کامیابی اور پی پی اور اے این پی کی اتنے بڑے پیمانے پر شکست کا ایک بڑا سبب تو یقینی طور پر طالبان کی Selective دہشت گردی ہے جس کا نشانہ اگر اے این پی، پی پی اور ایم کیو ایم بنیں تو صوبوں میں سے تینوں چھوٹے صوبے یعنی سندھ، کے پی اور بلوچستان بنے۔ مگر ساتھ ہی ایک یہ بھی حقیقت ہے کہ (ن) لیگ نے پنجاب میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو انتہائی موثر انداز میں پی پی کے خلاف استعمال کیا جبکہ پی پی کی قیادت (ن) لیگ کی اس مہم کا موثر توڑ نہ کر سکی۔ اس کے علاوہ پی پی کے سرائیکی صوبہ بنانے والے Move نے پنجاب کے عوام کو مکمل طور پر (ن) لیگ کو سہارا بنانے پر مجبور کر دیا اور یہ Move پی پی کے لئے پنجاب میں شکست کا اہم سبب بنا۔ اس Move کے نتیجے میں پی پی مرکزی پنجاب اور اپر پنجاب میں تو کوئی نشست حاصل نہیں کر سکی مگر سرائیکی بیلٹ میں بھی ایک کے سوا کوئی اور نشست حاصل نہ کر سکی۔ جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو حالانکہ سندھ کے عوام خود کو پی پی کی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی اور اس دوران اختیار کی جانے والی پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر تصور کرتے ہیں۔ اس کے باوجود سندھ میں پی پی کا بھرم قائم رہا جس کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سندھ کے عوام نے محسوس کیا کہ اس وقت جبکہ سندھ میں پی پی کا متبادل موجود نہیں، پی پی کی شکست کے نتیجے میں سندھ میں ایک ایسا سیاسی خلا پیدا ہو سکتا ہے جسے ایسی سیاسی قوتیں fill کر سکتی ہیں جو سندھ کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ سندھ کے عوام نے پی پی کو کم تر نقصان کار تصور کر کے اسے ایک بار پھر ووٹ دیا ہے۔ دریں اثناء کراچی اور سندھ کے دیگر حصوں سے انتخابات میں دھاندلی کی اطلاعات بھی آئی ہیں۔ اس سلسلے میں خاص طور پر اس بات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ نا معلوم اسباب کی وجہ سے کراچی اور سندھ کے دیگر مقامات پر کئی پولنگ اسٹیشنوں کی طرف سے انتخابات کے نتائج رات کو تین بجے کے بعد آنا بند ہو گئے جس کی وجہ سے ناکام ہونے والے اکثر امیدواروں نے الزامات لگائے ہیں کہ انتخابات کے نتائج کو تبدیل کیا گیا ہے۔ ان انتخابات کا ایک اہم فیکٹر یہ بھی تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سندھ میں انتخابات کے دوران تین قوم پرست پارٹیوں نے اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ اس فیکٹر کی اپنی اہمیت ہے۔ واضح رہے کہ اب تک سندھ کی اکثر قوم پرست پارٹیاں انتخابات کے ذریعے سندھ کی حالت تبدیل کرنے پر یقین نہیں رکھتی تھیں، مگر اس بار نہ صرف ان تین قوم پرست پارٹیوں یعنی سندھ یونائیٹڈ پارٹی جس کے سربراہ سید جلال محمود شاہ، سندھ کے ممتاز قوم پرست رہنما جی ایم سید کے پوتے ہیں، سندھ ترقی پسند پارٹی جس کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی ہیں اور قومی عوامی تحریک جس کے بانی رسول بخش پلیجو ہیں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان قوم پرست پارٹیوں کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہو سکا جس کے لئے وہ انتخابات میں دھاندلی کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ بہرحال سیاسی مبصرین اس سارے phenomenon کو کچھ اس طرح دیکھ رہے ہیں کہ قوم پرست امیدواروں کے ہارنے کی اتنی اہمیت نہیں ہے جبکہ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ سندھ کی قوم پرست پارٹیوں نے اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کر کے اب انتخابات میں حصہ لینا شروع کیا ہے۔ ان امیدواروں کی شکست کو سندھ میں اس وجہ سے اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ قوم پرست پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ وہ اب تک انتخابات کی پارٹیاں نہیں تھیں اور ان کو انتخابات میں حصہ لینے کا تجربہ نہیں تھا، مگر اب چونکہ انہوں نے انتخابات میں حصہ لینا شروع کیا ہے اور ان انتخابات کے دوران انہوں نے اس میدان میں اپنی بنیاد رکھی ہے تو امید کی جا رہی ہے کہ وہ بتدریج انتخابی تجربہ حاصل کر کے اس میدان کے بھی کامیاب شہسوار بن جائیں گے۔
بہرحال ان انتخابات کا اہم نتیجہ یہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) سب سے بڑی پارٹی بن کر آگے آئی ہے اور نہ صرف پنجاب میں بلکہ مرکز میں بھی حکومت بنانے جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ پی ایم ایل (ن) بنیادی طور پر پنجاب Based پارٹی ہے اور اس پارٹی کا یہ پہلو ان انتخابات کے بعد اور گہرا ہو گیا ہے۔ اس مرحلہ پر سندھ کے سیاسی مبصرین انتخابات سے پہلے نوازشریف کی طرف سے سندھ کی قوم پرست پارٹیوں کے قریب آنے اور ان میں سے ایک پارٹی ایس یو پی سے اتحاد قائم کئے جانے کو کافی اہمیت دے رہے ہیں۔ سندھ کے لوگ ابھی سے اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ نواز شریف کا ان قوم پرست پارٹیوں کے قریب آنا محض اس سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا کہ ان معاہدوں کے ذریعے کسی طرح پی پی کو کارنر کیا جائے یا اس کا مقصد سندھ کے عوام کے قریب آنا تھا اور سندھ اور پنجاب میں موجود تضادات کو انصاف اور توازن کی بنیاد پر حل کرنا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ حالانکہ ان قوم پرست پارٹیوں کے امیدوار ان انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکے مگر نواز شریف اگر چاہیں تو ان پارٹیوں کے نمائندوں کو وفاقی حکومت میں شامل کر کے (ن) لیگ اور ان قوم پرست پارٹیوں کے درمیان تعلقات کو مستقل طور پر مستحکم کر سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف کی طرف سے سندھ کے عوام کے ساتھ پنجاب کے نئے تعلقات کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔
ویسے بھی یہاں اکثر سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ اب بال نواز شریف کے کورٹ میں ہے۔ یہ بات کرتے وقت ان مبصرین کا موقف ہے کہ پنجاب کو چھوٹے صوبوں کو ساتھ لے کے چلنا چاہئے۔ اس کے لئے نواز شریف پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کو ایک جرأت مندانہ قدم اٹھانا پڑے گا۔ اس سلسلے میں ان مبصرین کی تجویز ہے کہ پاکستان میں صوبوں کے درمیان ساری شکایات اور تضادات کا ایک مستقل حل تلاش کرنے کے لئے اب پاکستان کو ایک نئے سوشل کانٹریکٹ کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے (ن) لیگ کو سارے صوبوں سے مذاکرات کرنے پڑیں گے اور کسی نئے سوشل کانٹریکٹ پر اتفاق ہونے کے بعد اس معاہدے کی روشنی میں آئین میں مطلوبہ ترامیم کرنی پڑیں گی۔ اس کے علاوہ خاص طور پر سندھ کو شکایات ہیں کہ 1991ء میں نواز شریف کی حکومت کی طرف سے لائے گئے پانی کے معاہدے میں سندھ کے تاریخی موقف کو تو تسلیم نہیں کیا گیا مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر بھی عمل نہیں کیا جا رہا ہے اور 1999ء سے اب تک پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کی تقسیم اس معاہدے کے بجائے اپنے مخصوص فارمولوں کے تحت کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں سندھ کی نہ صرف ڈیلٹا بلکہ اب سندھ کے اکثر علاقے پانی کی شدید کمی کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ کے پانی کے ماہرین کے مطابق گریٹر تھل کی منظوری بھی نواز شریف کے دور میں خود 91ء کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دی گئی۔ سندھ کے یہ ماہرین اور اکثر سیاسی عناصر کی رائے ہے کہ نواز شریف سندھ اور پنجاب میں ایسے تاریخی تعلقات قائم کرنے کی بنیاد ڈال سکتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان میں ایک حقیقی وفاق قائم ہو سکے بلکہ ایک مستحکم وفاق پاکستان قائم ہونے کی ابتدا ہو سکے گی۔
تازہ ترین