• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

’’آئینِ نو‘‘ کے جاری موضوع پر کالم کی گزشتہ اشاعت میں پندرہ برسوں سے پاکستان کے خلاف جاری عالمی ذرائع سے بے نقاب ہونے والی بھارتی ریاستی دہشت گردی کا مختصر احاطہ اور اُسے کائونٹر کرنے کی ہماری اپنی سکت سے اِس کا موازنہ کرتے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ ہم اپنی سرزمین اور 116ملکوں میں جاری پاکستان مخالف بھارتی ففتھ جنریشن وار کا نتیجہ خیز جواب دینے کے لئے کیا کریں؟

اِس بڑی، قومی، فوری اور حساس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے یہ سمجھنا لازم ہے کہ پاکستان کیخلاف بھارت کی یہ جنگ کمیونیکیشن سائنس کے غلبے کے ساتھ ملٹی ڈسپلنری اپروچ اور منظم اطلاق کی حامل ہے۔

اِس میں آئی ٹی، جدید بینکنگ، ڈویلپمنٹ سائنس اور جملہ مطلوب علوم سے مدد لیتے ہوئے انتہا کے مذموم اہداف مقرر کرتے ہوئے ایک خفیہ بین الاقوامی نظام قائم کیا گیا ہے۔ یہ روایتی پروپیگنڈہ سائنس اور فقط سائیکلوجیکل وار فیئر کے اطلاق سے دشمن (پاکستان) کا مورال گرانے، اپنا بڑھانے، ہمیں بدنام اور خود کو سرخرو کرنے اور دنیا کو قائل کرنے سے کہیں بڑھ کر شیطانی طرزِ جنگ ہے، اِس میں ہمارے داخلی، سیاسی استحکام کو پارہ پارہ کرنے، افواج و عوام میں خلیج پیدا کرنے اور اقتصادی تباہی کی طرف لے جانے کی یکطرفہ اور مسلسل ریاستی بھارتی کوشش ہے۔

اِس نادید جنگ میں سرحدوں پر حملہ آور ہونے کی بجائے ’’مقامی معاونت‘‘ سے آزادی اور صوبہ پرستی کی تحاریک چلوانے، اُن میں شدت پیدا کرنے کے علاوہ براہِ راست ٹارگٹ کلنگ اور مسلسل ہلاکت خیز دھماکے کرا کر قوم کو ڈرانے اور اقتصادی و سیاسی طور پر کھوکھلا اور جامد کرنا بھارت کے جاریہ اہداف ہیں ، جس میں ایک سے بڑھ کر ایک حربہ بہت منظم انداز میں مقامی معاونت سے تواتر سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یقیناً ہماری مجموعی ریاستی نااہلی (بدنیتی اور نااہلی سے بنی)مہلک حد تک بدتر گورننس نے پاکستان کو بھارت کے برسوں سے جاری یکطرفہ حملوں میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، اِس کے باوجود ﷲ کے فضل و کرم اور قوم کے بلند درجے کے قدرتی مورال اور روایتی جنگ میں بھارت کے مقابل آنے اور ایٹمی صلاحیت میں تو اِس سے بھی آگے نکل جانے کی عالمی تسلیم شدہ حقیقت نے نئی دہلی کو اُس کے مذموم ارادوں میں حتمی طور پر کامیاب نہیں ہونے دیا۔

بالآخر تو وہ اپنے کئے پر خود گھمبیر صورتحال سے دوچار ہو گیا ہے۔ اِس کا ’’جدید ترقی پذیر سیکولر جمہوریہ‘‘ کا پُرکشش امیج پوری دنیا میں پاکستان کے الزامات سے نہیں، مودی کی ہندو توا سیاسی فلاسفی، اُسی کی روشنی میں پالیسی سازی اور مخصوص طبقات کے خلاف جاری غیر آئینی فیصلوں سے ہوا ہے۔

مودی کی بنیاد پرست شخصیت کا پس منظر، اُس کا فاشسٹ اندازِ حکمرانی اور جو کچھ بھارت میں ہو گیا اور ہو رہا ہے، وہ سب کچھ عالمی اداروں، تنظیموں اور سفارتی رپورٹوں میں ریکارڈڈ، مصدقہ اور پاکستانی بیانیوں کے مطابق اور بھارتی مظلوم طبقات کی آہ وبکا کا مکمل عکاس ہے۔

یہ وہ سازگار صورتحال ہے جس میں پاکستان اِس بہترین پوزیشن میں آ گیا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف روایتی جنگی تیاریوں اور اسٹریٹجکل بیلنس آف پاور کی طرح نتیجہ خیز ففتھ جنریشن وار کی بھی جنگی بنیاد پر تیاری کر سکتا ہے۔

اِس ضمن میں پاکستان کے پاس اپنی سکت بڑھانے کے لئے موجود وسائل اور پوٹینشل بھی کم نہیں لیکن اِس میں اپنے اسٹریٹجکل پارٹنر کے ساتھ اِس فیلڈ میں بھی تعاون و اشتراک کی ضرورت ہے کیونکہ خود بھارت، پاکستان اور چین مخالف ففتھ جنریشن وار میں تنہا نہیں بلکہ زیادہ آپریشنل اور فرنٹ لائن پر ہے۔

اِس کے پارٹنر، اِس کے ماہر بڑی اور سائنٹیفک اپروچ کے حامل ہیں لیکن امریکی انتخاب کے نتائج نے اِس صورتحال میں بھی پاکستان کے لئے موافق حالات پیدا کئے ہیں بشرطیکہ پاکستان ڈپلومیسی کے روایتی انسٹرومینٹس کی جگہ نئے استعمال کرکے اور تجربات کو سامنے رکھتے مطلوب نئے ڈیزائن تیار کرے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ وزارتِ خارجہ میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ واضح سرگرمی اور تازگی محسوس تو ہوئی تھی اُس نے رنگ بھی دکھایا لیکن جو سازگار صورتحال بنتی جا رہی ہے اور نئے مشکل ترین سفارتی چیلنجر پیدا ہو رہے ہیں، وزارت کا کردار اور ایکشن اِس سے مطابقت رکھتے دکھائی نہیں دے رہے۔

ففتھ جنریشن وار کا بڑا تقاضا جہاں انٹر ڈسپلنسری اپروچ کی اختیاریت ہے وہاں اِس میں شدت سے مطلوب پارٹیسپٹری اپروچ اختیار کرنا، نتائج حاصل کرنے کیلئے ہے، اِسی سے وہ مربوط نظام وجود میں آئے گا جو ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کے لئے پاکستان کی کیپسٹی بلڈنگ کرے گا کہ ابھی تو یہ بہت محدود اثر کے ساتھ صرف سوشل میڈیا تک نظر آ رہی ہے، وہ بھی بڑی خامیوں کے ساتھ، قومی سوچ کے حامل کچھ صحافی اور عام شہری اپنے تئیں اِس کے تجربات کر رہے ہیں۔

’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کے اہداف سے بھی آگے بھارت نے 15سالہ یکطرفہ اپنی جنگ میں پاکستان کو جس گھمبیر صورتحال سے دوچار کر دیا ہے، اِس کے ازالے کے لئے فقط ’’وار‘‘ ہی لازم نہیں۔

خود ہماری حکمرانی کے انداز اور سیاسی سماجی رویوں میں مطلوب تبدیلی برپا کرنے کے لئے لازم ہے کہ روایتی اور محدود اثر یا ڈیزاسٹر قسم کے (جو گزری نواز حکومت میں بہت ہوئے) کمیونیکیشن آپریشنز پر نظرثانی اور ترک کرکے متعلقہ موضوع پر متعلقہ ماہرین ہی کی مشاورت سے برین سٹارمنگ کا اہتمام ہو۔

اِس سے شدت سے مطلوب ’’نیشنل کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم‘‘ کے قیام کی راہ نکلے گی جو ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ سے بھی بالا دیگر تمام لازم قومی ابلاغی ضروریات کے شعبوں، وسائل، موجود اور مطلوب لازموں کی نشاندہی کرکے مقررہ مقاصد و اہداف کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہو گا۔

اِس ضمن میں منتخب تھنک ٹینکس وزارت ہائے اطلاعات، سائنس و ٹیکنالوجی، آئی ایس پی آر اور بڑی یونیورسٹیاں مل کر ابتدائی نوعیت کی برین اسٹارمنگ کا اہتمام کریں۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اب ملکی دفاع و سلامتی کا بڑی حد تک تقاضا براڈبیسڈ ہو گا جسے ہم نے بطور ہوشیار و خبردار قوم کے پورا کرنا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین