• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لکھنا تو یہ چاہئے کہ پاکستان میں انتخابات بخیر و خوبی انجام پائے، مگر پاکستانی سیاست کے چلن دیکھ کر ”بخیر و خوبی“ کا جملہ ایسے ہی لگتا ہے، جیسے کوئی بوڑھا باپ اپنی ڈھلتی عمر کی بیٹی کو بیاہ کر، منہ آسمان کی طرف کر کے کہے ”شکر ہے مولا، تو نے مجھے اس فرض سے سبکدوش کیا “حالات فرض سے سبک دوشی کے ہی لگتے ہیں، خیر و خوبی کا پہلو کم کم ہی نظر آتا ہے!
مگر کیوں؟
اس پر بات بعد میں ہو گی، پہلے اپنے صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کا ذکر خیر؟
گزشتہ روز کے روزنامہ جنگ میں صفحہ اول پر خبر تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ”صدر آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والی عبرتناک شکست پر پارٹی رہنماؤں سے رپورٹ طلب کر لی! مسلم لیگ ن کے ہاتھوں وسطی پنجاب کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب میں بھی شرمناک شکست پر پی پی پی پنجاب کے صدر منظور وٹو سمیت کئی رہنماؤں پر صدر زرداری کا سخت اظہار برہمی… وٹو اور دیگر عہدیداروں کو پنجاب میں شکست کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا“۔
خبر پڑھی تو بے ساختہ وہ محاورہ یاد آگیا کہ ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ اس رپورٹ پر جواب طلبی تو خود آصف علی زرداری اور ان کی خواہر عزیز فریال تالپور سے ہونی چاہئے، جنہیں پنجاب میں تمام پارٹی امور کا انچارج نامزد کیا گیا تھا۔ وٹو جیسے تیسرے درجے کے رہنماؤں سے جواب طلبی؟ چہ معنی؟
یہ شکست نوشتہ دیوار تھی۔ اسی کالم میں یہ خاکسار، انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے لکھ چکا ہے کہ سوائے سندھ کے صدر آصف زرداری کو پاکستان کے کسی حصے سے الیکشن لڑنے اور جیتنے میں کوئی دلچسپی نہیں، وہ اپنی آئندہ سیاست سندھ میں قلعہ بند ہو کر اور سینٹ میں اپنی اکثریت کے بل پر کرنا چاہتے ہیں!
پیپلز پارٹی کو یہ بُرا دن آصف علی زرداری کی ضدی شخصیت اور مافیا سٹائل انداز سیاست نے دکھایا ہے۔ جس پارٹی کو کبھی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسی شعلہ بیان اور عوامی رہنما دستیاب تھے، اب اسے ایک مورچہ زن اور لکنت کے شکار سپہ سالار کی سربراہی میں لڑنا تھا۔ کبھی پیپلز پارٹی کے رہنما گلیوں اور سڑکوں پر عوام کے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے، اب ورکر پانچ برس سے اپنے لیڈروں کی شکل دیکھنے کو ترس گئے! اپنے عرصہ حکومت میں صدر زرداری نے سیاست اور عوام کے تمام معاملات ڈاکٹر عاصم، رحمن ملک جیسے غیر منتخب، غیر عوامی، غیر سیاسی افراد کے ہاتھوں میں سونپ دیئے تھے۔ وہ سودوں، ٹھیکوں اور کمیشنوں کی سیاست کرتے رہے اور پارٹی کارکن کسی معجزے کے منتظر رہے! لیکن معجزے ہونا بند ہو چکے، اب جو بویا، وہی کاٹنا پڑے گا!
صدر زرداری کو ”دوست نواز“ کہلانے کا بہت شوق ہے، مگر وہ دوست نوازی ہمیشہ سرکاری خزانے کے زور پر کرتے ہیں ان کے تمام تر سیاسی اتحادی اور غیرمنتخب درباری سرکاری خزانے سے دانہ دنکا چگ چکے، اب ذلتیں، پیپلز پارٹی کے ورکر گلیوں بازاروں میں سہہ رہے ہیں!
صدر زرداری دعویٰ تو بہت کرتے ہیں کہ ان سے بڑا سیاست باز، سیاست کار اور سیاستدان کوئی نہیں مگر انہوں نے اپنی مرحومہ بیوی اور پاکستانی عوام کو محبوب لیڈر بے نظیر بھٹو کی بھری پوری پارٹی کو لٹا کر پانچ سال میں یوں فارغ کیا کہ اپنے شیخ صاحب یاد آ گئے!
شیخ صاحب کی بیوی بستر مرگ پر تھی، اس نے اپنے آخری لمحات میں اپنے خاوند سے پوچھا!
”آپ میرے مرنے کے کتنی دیر بعد دوسری شادی کریں گے؟“
پہلے تو شیخ صاحب چپ رہے، جب بیوی نے دہرا کر یہی سوال پوچھا تو کہنے لگے!
”دوسری شادی پر خرچہ بہت آئے گا… میں سوچ رہا ہوں کہ تمہارے ”قل“ کی بریانی میں ہی اپنا ولیمہ ایڈجسٹ کر لوں!“
تو اب آصف زرداری صاحب بھی اپنے اقتدار کے پانچ سال بعد، اپنی بیوی کے سیاسی قل کر کے، اسی میں اپنی شکست کا ولیمہ بھی بھگتا لیں… پیپلز پارٹی تو برباد ہو گئی، اب اور ہو گی اس لئے کہ زرداری صاحب بدلیں گے نہ ان کا انداز سیاست ۔
شروع میں بات ہوئی تھی کہ ان انتخابات میں ”خیر و خوبی“ کا عنصر کم کم ہی نظر آتا ہے، ٹیلی ویژن پر جو کراچی میں ہوا وہ سب نے دیکھا، جو باقی ملک میں ہوا وہ ابھی تک کسی نے نہیں دیکھا، وہ کچھ دنوں بعد نظر آئے گا۔ ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے مسلم لیگ کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد کا جو اب پیغام دیا، وہ قابل غور ہے۔ اس میں انہوں نے کہا کہ ”مسلم لیگ (ن) کو پنجابیوں کی نمائندہ جماعت بننے پر مبارکباد… دھاندلی کے الزامات تو کچھ دیر بعد گرد و غبار کی طرح بیٹھ جائیں گے مگر جب ایک بار پھر پنجاب کی ”بالادستی“ ”تسلط“ اور ”استحصال“ کی بات ہو گی تو جواب دہی مشکل ہو جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کو فتح مبارک… مگر یاد رہے مرکز میں اس کی حکومت صرف اور صرف پنجاب کی سیٹوں کے بل پر بننے جا رہی ہے!
کل کو ”تخت لاہور“ اور پنجاب کی حکمرانی“ کا سوال پھر اٹھے گا؟
اس کا جواب ابھی سوچنا ہو گا اور تدارک بھی ابھی کرنا ہو گا!! اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔
تازہ ترین