• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجابی کی مشہور داستان سوہنی مہینوال کا اہم کردار مہینوال سنٹرل ایشیا سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ ایک بہت بڑا تاجر اور امیر زادہ تھا۔ ایک دفعہ قافلے کے ساتھ دہلی جا رہا تھا، راستے میں گجرات کے مقام پر پڑائو کیا تو وہاں سوہنی کی ایک جھلک نے رستے کی سمت تبدیل کر دی۔ اس کے عشق میں ایسا گرفتار ہوا کہ اپنے وطن واپس ہی نہ گیا بلکہ یہیں سے دوسرے جہان رخصت ہوا۔ تجارت کے رستے پر چل کر آنے والا مرزا عزت بیگ جب رومان کے رنگوں میں نہال ہوا تو اس کے وجود میں محبت کی ایسی جاگ لگی جو اُسے دل اورروح کی شاہراہ پر لے گئی جہاں تخت پر بیٹھنے والے امیر زادے بخوشی اپنا تاج اُتار کر کچی مٹی کے برتن بنانے والی معشوق کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں۔ اپنے القابات، نام اور رُتبے کو عشق کی بھٹی میں جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔ آرام و سکون تج کر محبوب کی بھینسوں کی رکھوالی کرنے کو اعزاز سمجھنے لگتے ہیں اور مہینوال بن جاتے ہیں۔ سوہنی مہینوال پنجاب کی بےحد مقبول عشقیہ داستان ہے جو عاشق اور معشوق کی لازوال قربانی اور چاہت پر مبنی ہے۔ عشقِ لازوال کی یہ کہانی کچی پکی سڑکوں اور دریائوں سے ہوتی ہوئی باطن کے دریا میں ضم ہوئی تو تصوف کی داستان بن گئی جس میں ہر دو نے ذات کی نفی کی۔ عزت، نام، مرتبے اور وطن چھوڑے حتیٰ کہ جان بھی محبوب کی منشاپر وار دی۔ اردو کے معروف شاعر بیدل کے آبائو اجداد بھی سنٹرل ایشیا سے برصغیر آئے تھے۔

موسیقی کی بات کریں تو معروف ساز رُباب اور سرود بھی سنٹرل ایشیا کا تحفہ ہیں جن میں برصغیر کی ثقافت کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں کر کے انہیں نئی شکل دے دی گئی۔ گوشت سے تیار کردہ طعام کباب اور بار بی کیو بھی سنٹرل ایشیا سے برصغیر میں متعارف ہوئے۔

مغل بذاتِ خود ترک تھے اور سنٹرل ایشیا سے ہی برصغیر آئے تھے۔ ان کے دور میں فارسی، جسے علم و ادب کی زبان کہا جاتا تھا، کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل رہا بلکہ ان کے بعد بھی انیسویں صدی تک فارسی سرکاری زبان رہی۔ پنجابی زبان کے تین اہم ذرائع ہیں جن میں عربی، فارسی اور ترک اثرات واضح ہیں۔ مغل چونکہ ٹھنڈے علاقوں سے آئے تھے اور برصغیر میں گرمی رہتی تھی، وہ اپنے ساتھ چھوٹے پودے برصغیر لے کر آئے اور باغات بنائے جنہیں فواروں کے ذریعے سجایا جاتا تھا جو اب بھی انتہائی دیدہ زیب اور پرشکوہ نظر آتے ہیں۔

برصغیر میں موجود مشہور صوفی سلسلے بھی براستہ افغانستان برصغیر آئے اور یہاں کے لوگوں کو امن، برداشت اور انسانیت کی تعلیمات سے روشناس کروایا۔ الغرض مذہب، ثقافت اور زبان کے حوالے سے سنٹرل ایشیا نے برصغیر پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں جو آج بھی تعمیرات، زبان، رسوم و رواج اور صوفی روایت کے ذریعے اپنی اہمیت کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔

وسطی ایشیائی ریاستیں اپنی منفرد اور متنوع ثقافت کے لئے بھی بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح، پاکستان بھی جداگانہ صوبائی اکائیوں کے باعث منفرد ثقافتی تنوع رکھتا ہے۔ مشترکہ نظام میںرہنے اور برسوں کے تجربوں کے بعد ان ریاستوں نے اپنی ثقافت کو جدّت کے رنگوں سے آراستہ کیا ہے جبکہ پاکستان کا ثقافتی تنوع مکمل طور پر روایتی ہے۔ دونوں ممالک فنونِ لطیفہ میں روایت اور جدّت کا تبادلہ کر کے ثقافت کے نئے رنگ اجاگر کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ثقافت کے اداروں کے مابین معاہدے ہونے چاہئیں۔ ثقافت، آثارِ قدیمہ، ادیبوں اور فنکاروں کے وفود کےدوروں کے علاوہ نمائشوں اور تقریبات کا انعقاد کرنا چاہئے۔ قومی سطح پر ان ریاستوں کے افراد میں یک رنگی کا اضافہ ہوا ہے جس سے پاکستانی ریاست بھی فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔

لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ سنٹر نے پچھلے دنوں سنٹرل ایشیا سے تجارتی تعلقات استوار کرنے کے لئے کرغزستان کے دورے سے سفرکا آغاز کیا۔ مجھے بھی اس قافلے میں شمولیت کی دعوت ملی اور ثقافت و کلچر کی نمائندگی کا موقع عطا ہوا جس میں مختلف جماعتوں کے سینیٹرز کے علاوہ تجارت، تعلیم اور سیاحت سمیت ہر شعبۂ حیات کی اعلیٰ سطح کی نمائندگی موجود تھی۔ کرغزستان کی طرف رُخ کیا تو کئی گرہیں کھلتی چلی گئیں۔ پتہ چلا ہمارے درمیان اشتراکات کا ایک طویل سلسلہ اور مفاہمت کی لمبی سیریز موجود ہے۔ صدیوں پہلے حالات اور راستوں کی مشکلات کے باوجود تجارتی اور ثقافتی قافلوں کی جو آمدورفت جاری رہتی تھی، اسے طویل وقفے کے بعد دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت کی طرف راغب کیاگیا ہے۔ آج کے جدید مواصلاتی نظام کے باوجود ابھی تک نہ زمینی فاصلوں کو ختم کرنے کے لئے کوئی سڑک تعمیر کی گئی ہے اور نہ ہی براہِ راست ہوائی سفر کا آغاز ممکن ہو سکا ہے۔ ہمیں بھی براستہ دبئی جانا پڑا اور دو اڑھائی گھنٹوں کا سفر ڈیڑھ دن میں طے ہوا۔ پاکستان میں کرغز سفیر مسٹر ایرک سمیت وہاں کے وزراء، ثقافتی و تجارتی اداروں کے سربراہوں اور شرکاء نے دو روزہ کانفرنس میں جس محبت اور اپنائیت کا مظاہرہ کیا، اس کا بیان لفظوں میں ناممکن ہے۔ لاہور سنٹر کے نذیر حسین کو مبارکباد کہ انہوں نے دھند میں لپٹے اور فراموش راستوں سے برف ہٹانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ سنٹرل ایشیا اور پاکستان کے درمیان ڈائریکٹ فلائٹ کا اہتمام کرے اور تجارتی حوالے سے بھی ان ریاستوں کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھائے کیوں کہ وہ برابری اور رواداری پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین