• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حکومت کی ڈھائی سالہ کار کردگی تسلی بخش نہیں تو پھر بھی وہ غیرجمہوری طور پر حکومت میں نہیں آئے بلکہ جمہوریت کے مسلمہ اصولوں کے ذریعہ ہی قوم نے اُنہیں یہ حق دیا۔ جمہوریت کی یہی تو خوبی یا خامی ہے کہ جس میں لوگوں کو گنا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں تو ایک ووٹ کی بنیاد پر بھی وزیراعظم بنے ہیں، موجودہ حکومت کو تو پھر بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ اکثریت حاصل ہے۔ اگر اتحادیوں پر اعتراض ہے تو پی ڈی ایم بھی تو ایک اتحاد ہے۔ اگر آج حکومت اسمبلیاں توڑ دے، مڈ ٹرم الیکشن کا اعلان ہو جائے تو کیا پی ڈی ایم کا شیرازہ نہیں بکھر جائے گا؟ یہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں کیا ہوا؟ وہاں پی ڈی ایم کی 3جماعتوں میں اتفاق نہ ہو سکا، عام انتخابات میں یہ کیسے اتحادی رہ سکتے ہیں؟ جلسے، جلوس، ریلیاں مسئلہ نہیں بلکہ یہ تو جمہوریت کا حسن ہے۔ حزبِ اختلاف کا کام ہی حکومتِ وقت کے غلط کاموں کی نشاندہی کرتے رہنا ہے لیکن اِس وقت کووڈ 19کی دوسری لہر اپنی پوری شدت کے ساتھ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے تو اجتماعات سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ ماسک لگانے، سینی ٹائیزر کے استعمال اور سماجی دوری سے ہی اِس وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ حکومت کو پہلے اِن احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہئے تھا لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا، اُس کے وزیر جلسے کرتے رہے، پروگرام کرتے رہے یہاں تک کہ وزیراعظم صاحب نے بھی بڑے بڑے جلسوں اور پروگراموں سے خطاب کیا۔ اُنہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے تھا۔ جماعت اسلامی نے اپنے طور پر اعلان کرکے کہ وہ کورونا کی وجہ سے جلسے نہیں کریں گے، ایک اچھی روایت قائم کی۔ حزبِ اختلاف کو بھی اِس قسم کے اجتماعات سے گریز کرنا چاہئے۔ ہر کوئی یہ محسوس کررہا ہے اور حزبِ اختلاف بھی سمجھتی ہے کہ جلسے جلوسوں سے، ریلیوں سے، ٹی وی ٹاک شو میں بدکلامی کرنے سے حکومت کسی طور نہیں جائے گی، نہ ہی ماضی میں گئی تھی۔ حزبِ مخالف اپنی مومینٹم اور حکومت پر دباؤ کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اگر وہ کورونا کی وجہ سے اپنی تحریک کو ایک ماہ کے لئے ملتوی کردیتی ہے تو اُن میں جو جوش و خروش اور رفتار یعنی مومینٹم پایا جاتا ہے، وہ ماند پڑ جائے گا۔ اِس کے لئے انتہائی قدم کے طور پر لانگ مارچ، دھرنے اور اجتماعی استعفوں کو بھی استعمال کرنے کی بات کی گئی۔ حکومت کو جمہوری، دستوری طریقے سے گھر بھیجنے کے لئے آئین میں درج طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے۔ منتخب ایوانوں میں وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لے آئیں، عمران خان اُسی لمحے چلا جائے گا لیکن حزبِ اختلاف کو معلوم ہے بلکہ یقین ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا حشر وہی ہوگا جو سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات میں ہوا، آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع میں ہوا، بجٹ اور دیگر بلوں کی منظوری میں ہوا، 14باغی سینیٹرز کی تلاش آج تک نہ ہو سکی، اِس معاملے کو حزبِ اختلاف نے کس خوبصورتی سے دبا دیا، وہ باغی اب بھی اپنی جماعتوں میں موجود ہیں، اِن میں اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں۔ اِس لئے پی ڈی ایم اِس آئینی آپشن کی بات نہیں کررہی بلکہ وہ حکومت پر دباؤ بڑھا کر گھر بھیجنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اجتماعی استعفے دینے کی جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اُس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی حکومت کو دباؤ میں لینے کی کوشش ہے۔ اجتماعی استعفوں کے بارے میں ماہرینِ قانون جن کا تعلق حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے ہے، کی رائے بھی سامنے آچکی ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اجتماعی استعفوں پر اتفاق نہیں کرتیں۔

حکومت اپنے طور پر پی ڈی ایم کی حکمت عملی سے نمٹنے کے لئے منصوبہ بندی کر رہی ہے، اِس کے لئے شیخ رشید کو وزیر داخلہ کے طور پر میدان میں اُتار دیا گیا ہے۔ اُدھر پی ڈی ایم حکومت کی بساط لپیٹنے کی جدوجہد میں منصوبے بنارہی ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ ایک جانب نون لیگیوں کو اپیل کرتا ہے تو دوسری جانب اِس بیانیے نے کئی مخالفین بھی پیدا کر لئے ہیں۔ 13دسمبر کا لاہور جلسہ موضوع بحث بنا ہوا ہے، پی ڈی ایم اِس کو کامیاب کہہ رہی ہے اور حکومت ناکام۔ حکومت اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے اور پی ڈی ایم اپنی جگہ کھڑی ہے۔ بات جمہوریت بمقابلہ جمہوریت یعنی حکومت بھی جمہوریت کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی جب کہ حزبِ اختلاف نے بھی جمہوری عمل کے نتیجے میں ہی جنم لیا۔ دونوں آمنے سامنے ہیں، میان سے تلواریں نکالے، یہ خود سمجھنے والے نہیں، اُنہیں کون سمجھائے، ثالث کون ہو؟ ماضی کے ثالثوں کے دروازے جمہوریتوں نے ہی بند کردیے ہیں، اب کونسی تیسری قوت ایسی ملک میں ہے جو اِن دونوں جمہوریتوں کو انتہا پر جانے سے روک سکتی ہے، سمجھا سکتی ہے، دونوں کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے کا کہہ سکتی ہے، درمیان کا کوئی ایسا راستہ نکال سکتی ہے کہ دونوں اُس پر تیار ہو جائیں۔

تازہ ترین