• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کالم میں ہم نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کا ذکر کیا تھا۔ اس ہوٹل کے برسہا برس اسسٹنٹ منیجر رہنے والے بھاٹی گیٹ کے قدیم رہائشی پی حسن شاہ مرحوم کے بیٹے ڈاکٹر نادر حسن شاہ سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ’’اس ہوٹل میں ذوالفقار علی بھٹو کا کمرہ نمبر 55مستقل طور پر بک رہتا تھا جو کسی کو الاٹ نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ کسی وقت بھی بھٹو صاحب لاہور آ کر اس میں ٹھہر سکتے تھے۔‘‘ پی حسن شاہ نے چالیس برس تک اس ہوٹل میں ملازمت کی تھی۔ یہ پاکستان کا واحد ہوٹل ہے جہاں کوئی لفٹ نہیں۔ اس کی دوسری منزل پر جانے کے لئے روایتی سیڑھیاں استعمال کرنا پڑتی ہیں۔ اس کے فرش آج بھی دلکشی باقی ہے۔ ہم نے جب اس ہوٹل کو 1972ء میں دیکھا تھا تو اس وقت اس کے سارے فرش لکڑی کے ہوا کرتے تھے اور اس کا بار روم بڑا مشہور تھا۔ ایک زمانے میں یہاں ڈانس بھی ہوا کرتا تھا جو ہم نے بچپن میں کئی مرتبہ دیکھا تھا۔ کبھی اس کا مالک ایک پارسی تھا جو غالباً 1965 کی جنگ میں چلا گیا تھا۔ پھر یہ حکومت کے کنٹرول میں کئی برس رہا۔ اس کا ایک دوسرا ہوٹل فلش مین راولپنڈی میں تھا۔ اپنے وقت کا بہت بڑا ہوٹل تھا۔ فلیٹیز میں قائد اعظم ؒ ، جسٹس اے آر کارنیلیئس اور ایوا گارڈنز کے سویٹ آج بھی ہیں بلکہ جس کرسی پر قائد اعظمؒ بیٹھا کرتے تھے وہ آج بھی اسی کمرے میں موجود ہے۔ ایوا گارڈنز کے سویٹ میں بھوانی جنکشن فلم کی وڈیو کیسٹ بھی رکھی ہوئی ہے۔ انتہائی خوبصورت سویٹ ہے جبکہ جسٹس اے آر کارنیلیئس کے کمرے میں قانون کی کتابوں کا ٹچ دیا گیا ہے۔ آج بھی پرانے انگریزوں کے ماحول اور انگریزی دور کی کچھ کچھ خوشبو یہاں آتی ہے۔ کیا لاہور تھا، کیا ہو گیا۔ کبھی یہاں کا انٹرنیشنل ہوٹل، پرنس ہوٹل، ایمبیسیڈر ہوٹل اور نیڈوس ہوٹل کا بڑا نام تھا۔ اب ان کا نام و نشان نہیں رہا۔ نیڈوس ہوٹل بڑا خوبصورت تھا یہاں پھر بھی قائد اعظمؒ ٹھہرا کرتے تھے۔ NEDOUSہوٹل 1880میں مال روڈ پر Michael Adams Nedousنے تعمیر کیا تھا۔ کبھی اس کا نام پارک لگژری بھی رہا ہے۔ پھر یہاں ہلٹن ہوٹل بن گیا اور اب آواری ہے۔

مال روڈ پر 1947اور اس سے قبل قائم ہونے والی باٹا شوز کی دکان ابھی تک ہے البتہ اس لائن میں قائم تمام قدیم عمارتوں میں اب وہ دفاتر اور دکانیں نہیں رہیں۔ کبھی یہاں مشہور بھٹی فوٹو گرافر کی دکان ہوتی تھی۔ بھٹی نے اپنے دور کے کئی نامور لوگوں کی تصاویر بنائی تھیں۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ اس مال روڈ پر اپنے وقت کے تمام نامور فوٹو گرافروں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ ایس رولو، بھٹی فوٹو گرافر، زیدی فوٹو گرافر اور سینٹرل اسٹوڈیو۔ ایس رولو انگریز تھا۔ اس نے شادی نہیں کی تھی، مرتے وقت اپنے شاگروں کو دکان دے گیا تھا۔

1970تک لاہور کے مال روڈ پر سیر کرتے وقت باقاعدہ ایک بھینی بھینی خوشبو محسوس ہوتی تھی اور جونہی آپ چیئرنگ کراس سے آگے جاتے تھے تو باقاعدہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آیا کرتے تھے، محکمہ موسمیات کے مطابق چیئرنگ کراس سے آگے درجہ حرارت شہر کے درجہ حرارت سے دو تین درجے کم ہوتا تھا۔ اب تو سارا شہر ہی آلودہ اورہوا گرم ہو چکی ہے۔ شیر شاہ سوری نے کہا تھا کہ ’’لاہور کو ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کر دیا جائے‘‘ اور اس نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر لاہور کے لوگوں کو ایاز (محمود و ایاز والا) کو دعائیں دینی چاہئیں انہوں نے اس شہر کو دوبارہ آباد کیا۔ یہا ںپر کئی عمارتیں تعمیر کیں۔ ایاز سچ میں اس شہر لاہور کا بہت بڑا محسن تھا۔ ویسے اس لاہور کو لاہوری حکمرانوں نے ہی تباہ و برباد کیا ہے۔ جس قدر پیسہ میٹرو اور اورنج لائن پر خرچ کیا گیا اگر اس قدیم شہر کو محفوظ کرنے کے لئے اس سے آدھی رقم خرچ کی جاتی تو اس شہر کا تاریخی حسن نکھر آتا۔ شہر لاہور کی ایک قدیم روایت یہ بھی رہی ہے کہ ہر محلے میں ایک غنڈہ ضرور ہوتا تھا۔ یہ غنڈے اپنے علاقے اور بازار کی دھاک جمانے کے لئے دوسرے محلے اور علاقے کے غنڈوں کو نیچا دکھانے کے لئے اکثر مارپیٹ اور قتل بھی کیا کرتے تھے مگر یہ آج کے غنڈوں سے بہت مختلف تھے۔ وہ اپنے علاقے اور محلے کی خواتین اور بزرگوں کی بڑی عزت کرتے تھے بلکہ جب اپنی گلی میں آتے تھے تو آنکھ نیچی رکھتے تھے جبکہ آج کے غنڈے تو اپنے ہی محلے کی مائوں اور بہنوں کو اٹھا لیتے ہیں۔ لاہور کے پرانے غنڈے اچھا شوکر والا، بابو وارث، ماجھا سکھ، جگا گوجر، ٹیپو ٹرکاں والا، حافظ صمد، نورا کشمیری مشہور تھے۔ ماجھا سکھ نے حساب میں ایم ایس سی کی ہوئی تھی اور ایک واقعے نے اِس کو بدمعاش بنا دیا تھا۔ لاہور کے غنڈوں کے خلاف اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر جنرل محمد موسیٰ نے بڑی موثر کارروائی کی تھی۔بھاٹی گیٹ بڑا مردم خیز علاقہ رہا ہے۔ بھاٹی گیٹ کی مسز راشدہ ،قانون ساز اسمبلی کی پہلی خاتون ممبر تھیں جنہوں نے ایک اعلیٰ انگریز افسر سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا اور ہمیشہ برقعہ میں رہتی تھیں۔ وہ بھاٹی گیٹ ہی کے ایک انجینئر سید حسن شاہ کی بہن تھیں۔ امتیاز احمد معروف کرکٹراور کپتان، الیاس محمد سابق اوپنر، نذر محمد معروف کرکٹر اور مدثر نذر کے والد، اولمپکس 1960میں ریسلنگ میں بھی بھاٹی گیٹ کے محمد بشیر نے سونے اور کانسی کے تمغے جیتے تھے۔ اُنہیں تمغہ امتیاز اور تمغہ حسن کارکردگی بھی ملا تھا۔ یہ سب لوگ بھاٹی گیٹ کے تھے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دادا غلام نبی المعروف استاد گام کا تعلق بھی بھاٹی گیٹ سے تھا۔ مشہور موسیقار فیروز نظامی کا تعلق بھی بھاٹی گیٹ سے تھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین