• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

23جون 2016کو بریگزٹ یعنی برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے سوال پر ہونے والے ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں 48.11فیصد اور یونین سے انخلا کے حق میں 51.89فیصد کی شرح سے ووٹ دیا۔ گزشتہ چار سال اِس معاملہ پر برطانوی سیاست شدید ترین اتار چڑھائو کا شکار رہی۔ یہ عدم استحکام اِس قدر اہم اور سنجیدہ تھا کہ یہ برطانیہ کے تین وزرائے اعظم کھا گیا۔ اِس مسئلہ پر ڈیوڈ کیمرون اور تھریسامے کو مستعفی ہونا پڑا تھا پھر جب جون 2019میں بورس جانسن پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تو کیونکہ وہ نئے انتخابات کے نتیجے پر منتخب نہیں ہوئے تھے، اِس لئے آوازیں اٹھنے لگیں کہ ’’بریگزٹ‘‘ کیلئے ایک مضبوط وزیراعظم کی ضرورت ہے چنانچہ تقریباً چھ ماہ بعد ہی بورس جانسن نے نئے عام انتخابات کا اعلان کردیا اور دسمبر 2019میں بورس جانسن کی ٹوری پارٹی مضبوط ترین جماعت بن کر ابھری اور پارلیمنٹ میں اپنی قریب ترین حریف لیبر پارٹی سے 80نشستیں زیادہ حاصل کیں، اب چونکہ ٹوری پارٹی کی پارلیمنٹ میں واضح اکثریت موجود ہے اِس لئے گزشتہ ایک سال سے بورس جانسن نے ڈٹ کر یورپی یونین سے مذاکرات کئے لیکن اِس کے باوجود ڈیل اور نو ڈیل پر اتار چڑھائو ابھی تک جاری ہے حالانکہ یکم جنوری 2012کو برطانیہ مکمل طور پر یورپی یونین سے باہر آ جائے گا لیکن برطانیہ کے بعض بلکہ اکثریت سنجیدہ حلقے آج بھی مطمئن نہیں ہیں کہ تین وزرائے اعظم کی قربانی دے کر بھی علیحدگی کے بعد کیا ہوگا؟ اس کے خدوخال آج بھی مبہم ہیں۔

اب کیا ہوگا؟ برطانوی عوام کے سامنے آج یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ جسے حکومت وضاحت سے عوام کے سامنے رکھنے میں ابھی تک ناکام ہے کہ انخلا کے بعد یورپی ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ ایک دوسرے کے ممالک میں آنے جانے کیلئے امیگریشن کے کیا قوانین ہوں گے؟ کیا کچھ چیزیں بدستور ویسی ہی ہوں گی جیسی پہلے تھیں یا مکمل طور پر بدل جائیں گی؟ اِس سلسلہ میں بعض قوانین تو واضح ہیں۔ مثلاً، یورپی یونین میں برطانیہ کے ارکان جنہیں ’’ایم ای پی‘‘ کہا جاتا ہے، یہ تمام 73ارکان یورپی پارلیمنٹ چھوڑ دیں گے اور اِس طرح برطانیہ یورپی یونین کے تمام سیاسی اداروں اور ایجنسیوں سے نکل جائے گا۔ آئندہ اگر برطانوی وزیراعظم یورپی کونسل کے کسی اجلاس میں شرکت کرنا چاہے تو اُسے خصوصی طور پر مدعو کرنے کی ضرورت ہوگی، اِسی طرح برطانوی وزراء بھی یورپی یونین کے اجلاسوں میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔ ایک اور بڑی تبدیلی یہ آئے گی کہ اب اگر برطانیہ امریکہ اور آسٹریلیا سے کسی قسم کے مذاکرات کرنا چاہے گا تو وہ آزادانہ ایسا کر سکے گا جبکہ یورپی یونین کا ممبر ہوتے ہوئے وہ کسی دوسرے ملک سے رسمی مذاکرات نہ کرنے کا پابند تھا، بریگزٹ کے حامیوں کے مطابق اپنی آزاد تجارتی پالیسی تشکیل دینے سے برطانوی معیشت میں بہتری اور مضبوطی ہو گی۔

گو کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے مکمل انخلامیں دو ہفتے باقی ہیں لیکن سالِ رواں کے آغاز سے ہی برطانوی پاسپورٹ کا رنگ بدل دیا گیا ہے جو اب سرخ سے نیلا ہو چکا ہے اور اُس کی جلد پر یورپی یونین کے حروف مٹا دیے گئے ہیں۔ یکم جنوری 2021سے ایک رات پہلے برطانیہ کا وہ ادارہ بند ہو جائے گا جس نے یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات اور نو ڈیل کی تیاری کی تھی۔ یہ ادارہ 2016میں سابق وزیراعظم تھریسامے نے تشکیل دیا تھا، ادھر برطانیہ کیلئے اب یہ سہولت ختم ہو جائیگی کہ وہ یورپی یونین سے ایسے ملازموں کو حوالگی کا مطالبہ کرے جو برطانیہ سے بھاگ کر کسی دوسرے یورپی ملک میں چلے گئے ہیں۔ جرمنی نے تو پہلے ہی وارننگ دے دی ہے کہ ہمارا آئین اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے کسی شہری کو کسی ایسے ملک کے حوالے کریں جو یورپی یونین کا رکن نہ ہو، برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان سفر، ڈرائیونگ لائسنس، پالتو جانوروں کے پاسپورٹ، یورپی یونین کے ہیلتھ انشورنس کارڈ، اِن ممالک میں رہنا اور کام کرنے کے قوانین اور نقل و حرکت کی آزادی، پنشن کے معاملات، تجارت اور بہت سے دیگر ایشوز ایسے ہیں جن پر کم از کم عام لوگ گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ اِن تمام تر سوالات کے باوجود برطانوی وزیراعظم بورس جانسن یورپی یونین کے انخلا کو ایک نئی صبح سے تشبیہ دے رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اب ہم ایک نئے جذبے کے ساتھ تمام نئے مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے اور ایک مرتبہ پھر خود پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے لیکن حکومت اور وزیراعظم کے اِس جذبے اور اعتماد کے باوجود بریگزٹ کے معاملہ پر آج بھی اور شاید مستقبل میں بھی یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل رہے گا کہ کیا برطانیہ کو یورپی یونین کے باہر نکلنا چاہئے تھا یا نہیں؟ بالکل شیکسپیئر کے ڈرامہ ’’ہیملٹ‘‘ کے ڈائیلاگ کی طرح جس میں کہا گیا ’’ٹو بی اور ناٹ ٹو بی، دیٹ از دی کویسچن‘‘ یعنی کروں یا نہ کروں سوال یہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین