• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ پبلک ہو گئی، آپ کو یاد ہوگا، جون 2020میں ملک میں پٹرول بحران پیدا ہوا، تب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے ازخود نوٹس لیا، جج صاحب کے حکم پر ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے ابو بکر خدا بخش، ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس سمیت 5رکنی پٹرولیم کمیشن بنا، پٹرولیم کمیشن نے 168صفحاتی رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کی اور چیف صاحب کے حکم پر یہ رپورٹ پبلک کر دی گئی۔

یہ رپورٹ کیا ہے، نوحہ ہے ہماری مس مینجمنٹ کا، مرثیہ ہے ہماری لوٹ مار کا، تازیانہ ہے ہماری نااہلیوں، نالائقیوں کا، رپورٹ کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) بنی 2002میں، مگر اُسے چلانے کیلئے قوانین نافذ ہوئے 2016میں، یعنی 14سال ایڈہاک، عارضی حکم ناموں سے کام چلایا جاتا رہا، کمیشن رپورٹ کے مطابق اوگرا قوانین کے تحت کوئی بھی آئل کمپنی آئل ذخیرہ بنائے بغیر کام نہیں کر سکتی مگر ہماری 25آئل کمپنیوں کے پاس آئل ذخیرہ ہی نہیں، کمیشن رپورٹ بتائے۔

تیل بحران کی وجہ یہ تھی کہ آئل کمپنیوں نے ہنگامی صورتحال کیلئے 20دن کا تیل کا ذخیرہ رکھنا تھا جو نہیں رکھا گیا، جب تیل کی قیمتیں نیچے آرہی تھیں، سب کمپنیاں اِسی چکر میں تھیں کہ جب قیمتیں زمین پر آگریں گی تب تیل خریدیں گے، اور ایسا نہ ہو سکا، جب تیل کی قیمتیں اوپر جانے لگیں تو پی ایس او کے علاوہ تمام کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کرکے تیل بحران پیدا کر دیا، جو کچھ بھی غلط ہو رہا تھا، اُسے اوگرا نے روکنا تھا مگر اوگرا کٹھ پتلی بنی رہی، سب کچھ وزارتِ پٹرولیم پر ڈالتی رہی اور وزاتِ پٹرولیم سب کچھ اوگرا پر ڈالتی رہی، عوام لُٹتے رہے، ملک کا نقصان ہوتا رہا اور آئل کمپنیاں دھڑا دھڑ مال بناتی رہیں۔

پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق 2002میں یہاں 4آئل کمپنیاں تھیں، آج 66ہیں اور مزے کی بات کاغذوں میں سب آئل کمپنیاں خسارے میں، جی ہاں ایسا کاروبار جو 18برسوں میں 4کمپنیوں سے 66کمپنیوں تک جا پہنچا، ہے خسارے میں، اب جب 66کمپنیاں ہیں ہی خسارے میں تو بےچاری یہ کمپنیاں ٹیکس بھی نہیں دے پاتی ہوں گی، اندازہ لگائیے، ہم سے دس گنا بڑے بھارت میں صرف 7آئل کمپنیاں، سری لنکا میں 3، بنگلہ دیش میں 6جبکہ ہمارے ہاں یہ کاروبار اتنا منافع بخش کہ 66کمپنیاں مگر کاغذوں میں سب کی سب خسارے میں، یہ آئل کمپنیاں کن کی؟

بلکہ یہ کہنا درست کہ ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جس کے بڑے کی آئل کمپنی نہ ہو، سب محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے، پٹرولیم کمیشن رپورٹ بتائے کہ یہ آئل کمپنیاں ملک و قوم کو سالانہ ڈھائی سوا ارب کا ٹیکہ لگائیں، آگے سنیے، ڈی جی آئل، انجینئر یا تیل ایکسپرٹ ہونا چاہئے لیکن ہمارا ڈی جی آئل ڈنگر ڈاکٹر، جی ہاں جانوروں کا ڈاکٹر، آگے سنیے، پٹرولیم کمیشن رپورٹ نے ایک ایسے سیکشن افسر کی نشاندہی بھی کی جس کا بس ایک ہی کام کہ آئل کمپنیوں سے رشوت کے پیسے اکٹھے کرکے افسروں میں بانٹنے، آگے سنیے، سندھ کے بادشادہ کی آئل کمپنی کی 23ارب کی ہیرا پھیری پکڑی گئی، کیس نیب کے پاس آیا۔

پتا ہے نیب میں یہ کمپنی کتنے میں چھوٹ گئی؟ سوا ارب دے کر، 23ارب کا کیس، پلی بارگین ہو گئی سوا ارب میں، اِس ملک کو کیسے چونا لگایا جاتا ہے، اُس کی ایک ننھی منی سی مثال حاضرِ خدمت، 15جون کو جہاز 60ہزار میٹرک ٹن تیل لے کر پورٹ قاسم بندرگاہ کراچی پر آیا، اِسی دوران پتا چلا کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے والی ہیں، جہاز کوا یک سائیڈ پر کھڑا کر دیا گیا، 27جون کو جب تیل فی لیٹر 20روپے بڑھا تو اگلے دن 15دن سے سائیڈ پر کھڑا جہاز کاغذوں میں آف لوڈ ہوا اور پرانی قیمتوں پر آئے جہاز کا تیل جب نئی قیمتوں پر فروخت ہوا تو اُس ایک جہاز سے منافع کمانے والوں نے 2ارب روپے کا اضافی منافع کمایا، پریشان نہ ہوں، ایسی کاروائیاں آئے روز ڈالی جاتی رہیں۔

پٹرولیم کمیشن رپورٹ بتائے کہ ایک طرف عوام تک تیل کی سپلائی 44فیصد تک کم ہو گئی تھی مگر تیل کمپنیوں نے کاغذوں میں اپنی تیل کی سیل کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کیا، مثلاً لاک ڈاؤن کے سبب جب خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں سیاحت سمیت سب کام ٹھپ پڑے ہوئے تھے تب کاغذوں میں وہاں پٹرولیم کھپت ریکارڈ دکھائی گئی۔

گجرات میں ایک پٹرول پمپ پر 3ملین کی ڈلیوری دکھائی گئی جبکہ وہاں پٹرولیم ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 31ہزار لیٹر ہے، کاغذوں میں اِس شعبدے بازی کے ذریعے کروڑوں کے فائدے اُٹھائے گئے، پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق تمام بڑی آئل کمپنیاں اوگرا قوانین کے برعکس مسلسل ذخیرہ اندوزی کر رہی ہیں، اوگرا نے اُنہیں ذخیرہ کرنے کے جتنے آؤٹ لٹس کی اجازت دی ہوئی، کئی کے آؤٹ لٹس اِس سے کہیں زیادہ ہیں، جیسے ایک بڑی آئل کمپنی کوتیل ذخیرہ کرنے کیلئے 70آؤٹ لٹس کی اجازت دی گئی لیکن اِس کے پاس 6سو آؤٹ لٹس ہیں، رپورٹ کے مطابق تیل کی ترسیل کیلئے استعمال ہونے والے آئل ٹینکروں کے پاس کیوکیٹگری کا لائسنس ہونا چاہئے مگر ایک بھی آئل ٹینکر کے پاس یہ لائسنس نہیں۔

168صفحاتی رپورٹ کے یہ چند ٹوٹے، رپورٹ پڑھیں، دل ٹوٹے ٹوٹے ہوجائے، کیسا ملک، اِٹ پٹو تھلوں اک نویں کرپشن کہانی، اب یہاں وہی ایماندار رہ گیا، جسے موقع نہیں ملا، ابھی تمباکو مافیا پوری طرح بےنقاب نہیں ہو پایا، دوائیوں والے گھپلہ بازوں کو سزائیں نہیں مل پائیں، آٹا، گندم والوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا، چینی اسکینڈل میں دوچار پرچوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو پایا کہ یہ پٹرولیم کمیشن رپورٹ آگئی۔

سزا ملے بھی تو کسے، اپوزیشن سے حکومت تک، بیوروکریسی سے تاجروں تک سب کے سب شریک ِ جرم، یہ بھی دیکھا گیا کہ پکڑنے والے ہی ملزم یا ملزمان کے پشت پناہ، خدا کا شکر، نجی بجلی گھر ڈاکوں کا معاملہ کسی سرے چڑھ رہا ہے، نجی بجلی گھر کمپنیوں سے بہتر نرخوں پر ڈیڑھ درجن کے قریب نئے معاہدے ہوگئے۔

باقی معاہدے بھی ہو گئے تو اربوں، کھربوں کی بچت ہوگی، گردشی قرضوں میں کمی آئے گی، بہر حال اگر فرصت ملے تو پٹرولیم کمیشن رپورٹ ضرور پڑھیں، بہت ضروی ہے کہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے بے شرم، بے حیا کرداروں کو آپ بھی جان، پہچان سکیں۔

تازہ ترین