• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2008میں وینشڈ ایمپائر یعنی ’’معدوم ہونے والی سلطنت‘‘ کے نام سے روس میں ایک فلم ریلیز ہوئی تھی۔ اِس فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ 1970کے عشرے کے سوویت یونین میں نوجوان کس طرح کی زندگی گزار رہے تھے اور وہ کس طرح اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ ماسکو کے ایک تعلیمی ادارے میں سوویت یونین کی مختلف ریاستوں کے بچے زیر تعلیم تھے۔ کہانی کے مرکزی کردار دو نوجوان تھے، جنہیں ایک لڑکی سے عشق ہو گیا تھا۔ اُن سمیت کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ کچھ عرصے بعد اُن کے ملک سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے والا ہے اور اُس کے بعد اُن کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اِس فلم کا ہر منظر ڈرامائی ہے، یہ فلم نہ صرف روس بلکہ مغرب میں بھی بہت زیادہ مقبول ہوئی تھی۔ ایک بڑی تبدیلی یا تباہی اگرچہ نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن ہم اُس کا درست اندازہ نہیں لگا رہے ہوتے۔ یہ حقیقت اُس فلم کو دیکھ کر ہی محسوس ہوتی ہے۔ درست اندازے قائم نہ کرنے کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ لوگ پہلے والے حالات کو سامنے رکھ کر ہی مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہے ہوتے ہیں۔ اُنہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ جو قوتیں اُنہیں پہلے کنٹرول کر رہی تھی، وہ اب ویسی نہیں رہی ہیں۔جب دنیا کے موجودہ حالات کو دیکھ کر مجھے ’’وینشڈ ایمپائر‘‘ کی کہانی یاد آ رہی ہے۔ کورونا وائرس کے عالمی معیشت پر ہونے والے انتہائی منفی اثرات کے بارے میں دنیا بالکل اسی طرح درست اندازے قائم نہیں کر رہی ہے، جس طرح 1970 کے عشرے کے سوویت یونین میں نوجوانوں کو ایک بڑی تباہی یا تبدیلی کا اندازہ نہیں تھا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی معیشتیں پورا سال عظیم لاک ڈاؤن میں رہی ہیں۔ اس سے کسی حد تک انسانی زندگیاں تو بچا لی گئی ہیں اور شرح اموات توقع سے کم رہی ہے لیکن عالمی معیشت بدترین کساد بازاری کا شکار ہوئی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ 1929کی عظیم کساد بازاری کے بعد یہ سب سے بڑی کساد بازاری ہے۔

ماہرین اقتصادیات کے نزدیک یہ عظیم کساد بازاری 2021میں بھی جاری رہ سکتی ہے۔ اگرچہ کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کا عام استعمال شروع ہو چکا ہے لیکن 2021میں بھی عالمی معیشت کی انتہائی سست بحالی کی پیش گوئی کی جار ہی ہے۔ مختلف اداروں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ 2020-21میں عالمی معیشت کو اس وباء کی وجہ سے 12ٹریلین امریکی ڈالرز کا نقصان ہوگا مگر یہ اندازے بھی معیشت کی بحالی کے امکانات کو مدنظر رکھ کر قائم کئے جا رہے ہیں۔ ابھی تک اس بحران کے عالمی سیاست پر ہونے والے اثرات کا بہت کم لوگ ادراک کر رہے ہیں۔ اگر کچھ لوگ درست اندازے قائم کر بھی رہے ہیں تو بھی وہ انہیں کھل کر بیان نہیں کر رہے۔ شاید اُنہیں اپنے درست اندازوں کو بیان کرنے کےلئے اب تک تبدیلی کے کوئی ایسے ٹھوس شواہد میسر نہیں، جنہیں بنیاد بنا کر وہ اپنی بات دنیا کو سمجھا سکیں۔ اُنہیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ نئی عالمی طاقتیں ابھرنے والی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں ’’کرونی کیپلسٹ آمرانہ‘‘ نظام کو شدید خطرات لاحق ہیں، جو کورونا کے معاشی بحران سے پہلےحالات میں پنپ رہا تھا۔ وہ وقت دور نہیں کہ اس معاشی بحران کے اثرات کو کسی بڑے سیاسی بحرانوں کی شکل میں دیکھا جا سکے۔ پاکستان کے جو مقتدر حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ پہلے کی طرح وہ سارے معاملات کو اپنی مرضی سے چلاتے رہیں گے، وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ انہوں نے ابھی تک پاکستان میں ہونے والی مہنگائی، بےروزگاری، غربت اور عام آدمی کے مسائل کا درست اندازہ نہیں لگایا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی حالات کا درست اندازہ لگانے میں ناکام ہیں۔ وہ بھی معدوم ہوتے حالات کی سیاست کر رہی ہیں۔ سطح کے نیچے بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں، جو کسی وقت بھی سطح پر سامنے آسکتی ہیں۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں لوگ اس ماحول میں رہ رہے ہیں، جن کی منظر کشی وینشڈ ایمپائر میں کی گئی تھی۔ جی ہاں ! کوئی بھی درست اندازے قائم نہیں کر رہا۔ جن طاقتوں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ وہ معدوم ہو تی جارہی ہیں۔

تازہ ترین