• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے الیکشن کے بارے میں ہونے والی قیاس آرائیوں کے بارے میں اس سال بیس فروری کے کالم بعنوان ”الیکشن کے بارے میں سنجیدہ مغالطے“ میں تین بڑے فکری مفروضات اور مغالطوں کا ذکر کیا تھا۔ الیکشن نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ خوش قسمتی سے میرے زیادہ اندازے کافی حد تک درست تھے۔ اب الیکشن کا بہت حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو راہ راست پر لایا جا سکے۔
میں نے سب سے پہلے اس مغالطے کا ذکر کیا تھا کہ عمران خان مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کاٹیں گے اور اس کا پیپلزپارٹی کو براہ راست فائدہ ہوگا۔ میری دلیل یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ووٹ بینک 1988ء کے الیکشنوں سے گھٹتا چلا جا رہا ہے اور اس کو بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی بحال نہیں کر سکی لہٰذا اس وقت پیپلزپارٹی کا ووٹ بکھرے گا جس سے عمران خان فیضیاب ہوں گے۔ الیکشن میں ہوا بھی یہی ہے کہ عمران خان پنجاب اور پاکستان کے بہت سے علاقوں میں پیپلز پارٹی کی جگہ ملک کی سب سے بڑی دوسری پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے یعنی مسلم لیگ (ن) کاووٹ اپنی جگہ پر قائم رہا اور پیپلزپارٹی کا ووٹ عمران خان نے سمیٹ لیا لیکن چونکہ پیپلزپارٹی پنجاب میں پہلے ہی کمزور ہو چکی تھی لہٰذا اس کا ووٹ بینک عمران خان کو جتوا نہیں سکا۔
میں نے دوسرے مغالطے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ درست نہیں کہ ”پیپلزپارٹی کے سرائیکی صوبہ بنانے کی سیاسی حکمت عملی سے وہ علاقہ اس کی مٹھی میں چلا جائے گا۔ اگر زمینی حالات کو بغور دیکھیں تو تصویر اس کے الٹ نظر آتی ہے …المختصر سرائیکی صوبے کی سیاست کا پیپلز پارٹی کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہونے کا احتمال ہے“۔ الیکشن کے نتائج سے بھی یہی حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ سرائیکی صوبے کا نعرہ لگانے والے سابق وزیراعظم گیلانی اپنے بیٹوں اور بھائی تک کو بھی جتوا نہ سکے۔ اس علاقے سے جن سیٹوں پر مسلم لیگ (ن) جیت نہیں سکی اس کی وجوہات بالکل مختلف ہیں لہٰذا اب یہ طے ہو چکا کہ سرائیکی صوبے کے نعرے کھوکھلے تھے جن کا عوام کے ساتھ کوئی حقیقی تعلق نہیں تھا۔میں نے جس تیسرے مغالطے کا ذکر کیا اس بارے میں میرا اندازہ مکمل طور پر درست ثابت نہیں ہوا۔ میرا مشاہدہ تھا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے کارکردگی اتنی ناقص ہے کہ سندھی عوام پیپلزپارٹی کی ماضی کی طرح حمایت نہیں کریں گے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی سندھ کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے لیکن اس کی قومی اسمبلی کی سیٹوں میں کافی کمی ہوئی ہے۔ اگر یہی رجحان جاری رہا تو ایک دو الیکشنوں میں پیپلزپارٹی کا سندھ میں بھی وہی حال ہوگا جو پنجاب میں ہوا ہے۔ سندھ میں شہری درمیانہ طبقہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور جب اس کا وزن خاطر خواہ ہو جائے گا تو وہ بھی پنجاب کی طرح کارکردگی کی بنا پر نمائندوں کا انتخاب کرنا شروع کردے گا۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اس کی کارکردگی کا تاثر ہے۔ عوام نے مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں حکومت کو اس کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے ووٹ دیا ہے۔ ہر کس و ناکس یہ کہتا سنائی دیا کہ ”شریف برادران بھی کوئی فرشتے نہیں ہیں لیکن وہ کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں“۔ کچھ نہ کچھ سے ان کی مراد ترقیاتی پروگرام ہیں جن میں موٹروے اور میٹرو بس جیسے منصوبے شامل ہیں۔ میاں نواز شریف کی آزاد عدلیہ کی غیر مشرط حمایت، ہندوستان کے ساتھ صلح جوئی کے اظہار اور ملک میں سول انتظامیہ کو اولیت دینے نے بھی ان کے امیج کو اجالا ہے۔ اگرچہ ان کو اب بھی دائیں بازو کا رہنما تصور کیا جاتا ہے لیکن بہت سے ترقی پسند حلقوں میں ان کی اعتدال پسندی کو تسلیم کیا جاتا ہے اور سراہا جاتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی الیکشن میں بہت اچھی کارکردگی کے دو منفرد پہلو ہیں۔ پنجاب اور پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اس کے دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھرنے کے پس منظر میں عوام اور بالخصوص درمیانے اور خوشحال طبقوں کی پاکستان کو ایک جدید ریاست دیکھنے کی تمنا ہے۔ ان کے خیال میں عمران خان جیسی ایماندار اور بہادر شخصیت یہ کارنامہ سر انجام دے سکتی ہے۔ اس کے الٹ ان کی خیبرپختونخوا میں بھاری جیت کا تعلق صوبے کے مخصوص حالات اور پشتون قوم پرستی سے ہے۔
یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ وہ اپنی مذہبی انتہا پرستی کی بنا پر خیبرپختونخوا میں کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ ان کے مدمقابل ساری مذہبی پارٹیاں تھیں جنہوں نے عقیدے کی بنا پر کافی سیٹیں حاصل کی ہیں۔ البتہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان کی جیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پختون عوام میں امریکہ اور دوسری بیرونی طاقتوں کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی شکست فاش کی وجہ ان کی ناقص کارکردگی کے علاوہ ان کی امریکہ نواز پالیسیاں بھی تھیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اے این پی پیپلزپارٹی کی طرح اپنے صوبے میں کچھ سیٹیں ضرور جیت لیتی۔ اس لئے نئی مرکزی حکومت، فوج اور دوسرے اداروں کو صوبے میں دہشت گردی کے مسئلے کا فوراً حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب اگر عمران خان خیبرپختونخوا میں حکومت بنا لیتے ہیں تو ان کی عملی کارکردگی کا بھی ٹیسٹ ہوگا۔
اگرچہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب کے علاوہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی سیٹیں حاصل کی ہیں لیکن عمومی تاثر یہی ہے کہ بلوچستان کے علاوہ باقی تین صوبوں میں مخصوص علاقائی پارٹیاں جیتی ہیں یعنی پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اور خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف۔ یہ صورتحال بالکل نئی بھی ہے اور بہت زیادہ پیچیدہ بھی۔ پہلے پیپلزپارٹی چاروں صوبوں سے جیتتی تھی اور مسلم لیگ (ن) بھی کافی حد تک سارے ملک کی نمائندگی کا دعویٰ کر سکتی تھی لیکن اس الیکشن کے نتائج سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ اب سیاست علاقائی ہو چکی ہے جس سے نپٹنے کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں کو بہت محتاط ہونا پڑے گا۔ ہندوستان میں یہ سارا کچھ کئی دہائیوں سے ہو رہا ہے (جنوب اور شمال میں مختلف پارٹیوں کا وجود) ، اس کا مطالعہ کیا جانا چاہئے کہ بھارت اس سے کس طرح نبرد آزما ہورہا ہے۔
اس بدلی ہوئی سیاسی صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت کو ثابت کرنا ہے کہ وہ تمام صوبوں میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کر سکتے ہیں۔ وہ ایسے ترقیاتی پروگرام شروع کرے(جیسے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ) جس سے ملک کی ہر قومیت کو یکساں فائدہ ہو۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی کافی مشکلات سے گزرنا پڑے گا کیونکہ اس کا کوئی ایک مرکزی نقطہ نظر نہیں ہے۔ اس میں انتہائی سیکولر لوگ بھی شامل ہیں اور مذہبی انتہا پسند بھی۔ الیکشن کی حد تک تو عمران خان دوسری پارٹیوں کو نشانہ بنا کر کام چلا سکتے تھے لیکن اگلے پانچ سال کسی ایک مرکزی نقطہ نظر کے گرد متضاد دھڑوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر عمران خان ایسا نہ کر پائے تو ان کی پارٹی چند سالوں میں منتشر ہو جائے گی۔ پیپلزپارٹی پینتیس سال تک ایک مرکزی نظرئیے کی بنیاد پر چلتی رہی اور جونہی اس نے اس سے انحراف کیا زیادہ تر عوام نے اس کا دامن چھوڑ دیا۔
پاکستان میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ بلوچستان کا ہے کیونکہ بلوچوں کا پاکستانی معاشی سیاست میں کوئی حصہ نہیں ہے لیکن اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ضرورت ہے جو ہم کسی دوسرے کالم میں کریں گے۔
تازہ ترین