• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صبر آزما طویل مطالعہ اور لمبی سوچ بچار بھی بیکار ثابت ہوئی کیونکہ مجھے اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا کہ گزشتہ چند صدیوں سے یورپ کے چند مخصوص ملکوں اور امریکہ کے علاوہ باقی تقریباً ساری دنیا تخلیق، تحقیق، تعمیر ، ایجاد، دریافت اور اختراع کے حوالوں سے اس قدر بانجھ، بنجر اور بے فیض کیوں ہے؟
یہ ایک حیرت انگیز سٹڈی اور اوبزرویشن ہے کہ صرف چند ملکوں نے ہی بنی نوع انسان کو آگے لے جانے کا ”ٹھیکہ“ کیوں لے رکھا ہے اور باقی دنیا صرف”پیرا سائیٹس“ کی طرح ہی زندہ کیوں ہے؟
میں موٹی موٹی روزمرہ کی دریافتوں مثلاً بجلی، ریل ، کار ، فون ،ٹی وی، کمپیوٹر، ہوائی جہاز وغیرہ کی بات نہیں کررہا ہے بلکہ انسانی زندگی کے حساس ترین شعبوں اور حصوں میں بھی چند مخصوص ملکوں کی ہی اجارہ داری ہے مثلاً آپ اینٹی بائیوٹکس (Antibiotics)جیسی انقلابی اور انسان دوست دریافت پر غور کریں تو اک جہان حیرت کھلتا چلا جائے گا۔ اینٹی بائیوٹکس میں سے صرف ایک یعنی پنسلین 1928ء سے اب تک کروڑوں انسانی زندگیاں بچا چکی ہے اور اس کو دریافت کرنے والا پال ایرلش جرمن باشندہ تھا۔
ذرا تصور کریں کہ اینستھیسا (Anaesthesia) کے بغیر انسانی زندگی کتنی اذیت ناک ہوتی۔ سرجری کے دوران درد کا احساس ختم کرنے کا یہ طریقہ، نسخہ یا فارمولا دریافت نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ اس کا کریڈٹ ایک انگریز ہمفرے ڈیوی کو جاتا ہے اور اس سلسلہ میں اس سے پہلے جتنے لوگوں نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا وہ سب بھی”گورے“ ہیں۔ یاد رہے کہ یہی سلسلہ بڑھتے بڑھتے وہاں تک پہنچ گیا کہ اب جسم کے کسی حصہ کو سن کرنے کے لئے شعائیں بھی استعمال ہورہی ہیں۔
ہماری زندگیوں میں اک لفظ بہت فراوانی و روانی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔”بیکٹیریا“ (Bacteria) یعنی وہ جاندار مخلوق جسے انسانی آنکھ دیکھنے سے عاجز ہے حالانکہ یہ”جنات“ سے کم نہیں۔ بیکٹیریا کی دریافت مائیکرو بیالوجی کے میدان میں بنیاد کی سی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی دریافت کا سہرا ہالینڈ میں پیدا ہونے والے انیٹون وان لیوین ہوئک(Anton van leeuwenhoek) کے سر ہے۔
آج ویکسی نیشن (Vaccination)کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اسے 1798ء تک کوئی نہ جانتا تھا پھر لیڈی میری وارٹلے(Lady mary wortley)اور ایڈورڈ جینر(Edward jenner)نے یہ”معجزہ“ بپا کرکے انسانی زندگی کا رنگ و روپ ہی بدل دیا۔ دونوں ہی انگریز تھے اور یہ تو آپ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ”ویکسی نیشن“ وہ کام ہے جس کے نتیجہ میں کسی بیماری کے کمزور جراثیم جسم میں داخل کرکے اس بیماری سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچا جاسکتا ہے۔ ہم آج تک ”نیشن“ نہ بن سکے ،انہوں نے 1798ء میں ہی”ویکسی نیشن“ متعارف کرادی تھی۔
بائی دی وے آپ کے خون کا گروپ کیا ہے؟ جسے جانے بغیر آپ کا ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں بن سکتا اور خدا نخواستہ بوقت ضرورت آپ کو خون دینے سے پہلے یہ دیکھنا ضرور ی ہوگا کہ آپ کا بلڈ گروپ کیا ہے؟ کیا آپ نے زندگی میں کبھی ایک بار بھی سوچا کہ خون کی اقسام دریافت کرنے والا شخص بنی نوع انسان کا کتنا بڑا محسن ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے اس عظیم محسن کا نام بھی نہ جانتے ہوں گے کیونکہ آپ کی دلچسپی صرف”محسن پاکستان“ کا نام جاننے تک محدود ہے تو میں عرض کئے دیتا ہوں کہ اس کا نام تھا کارل لینڈ سیٹنز(Karl landsteiner)اور آپ آسٹریا کے رہنے والے تھے اور خون کی قسموں کو دریافت کرنے کا مبارک سال ہے1897ء۔ ہم آنکھوں میں خون اتارتے رہے، کبھی خون کھولاتے رہے، کبھی خون کی ندیاں بہاتے رہے یا”سستا خون تے مہنگا پانی“ جیسی گھٹیا فلمیں بناتے رہے،”اغیار و کفار“ خون کی قسمیں دریافت کرتے رہے۔
آج للوؤں پنجوؤں کو بھی علم ہے کہ وائی ٹامن (Vitamin)کسے کہتے ہیں لیکن مجال ہے کبھی کسی بٹ صاحب، بھٹی صاحب، مہر صاحب، میاں صاحب، چودھری صاحب، حضرت صاحب، مولوی صاحب، پیر صاحب کو اتنی توفیق ملی ہو کہ سمجھیں یہ ہے کیا اور کس کی عطا ہے؟ انسانی زندگی اور صحت کے لئے نہایت اہم غذائی مرکبات کی یہ عظیم پہیلی 1906ء میں بوجھ لی گئی اور یہ عظیم کارنامہ دو لوگوں نے مل کر مکمل کیا۔ ایک کا نام تھا کرسٹان اک مین(Chris taan eijkman)اور دوسرے مہربان کا نام تھا فریڈرک ہوپکنز(Fredrk hopkin)اور جیسا کہ ناموں سے ظاہر ہے گورے امریکن تھے اور دریافت ہونے والا پہلا وٹامن جیسے عموماً وٹامن لکھا جاتا ہے وائی ٹامنBتھا جو 1910ء میں دریافت ہوا۔اور اب کچھ دیر کے لئے انسانی صحت کی دنیا سے نکل کرکہیں اور چلتے ہیں۔ زلزلے تو دنیا میں آتے ہی رہتے ہیں اور جب بھی زلزلہ آتا ہے ،فالٹ لائنز کا ذکر بھی آتا ہے لیکن اس کے دریافت کنندہ جناب ہیری ریڈ (Hary reid)کا ذکر کرنا کبھی کسی نے مناسب نہیں سمجھا جس نے1911ء میں اس طلسم عظیم کو بے نقاب کیا اور بنی نوع انسان کے لئے ممکن ہوسکا کہ ان فالٹ لائنز کی نقشہ کشی کرتے ہوئے زلزلوں کی پیش گوئی کرسکے۔ اسی عظیم دریافت نے1950ء میں قشری پلٹیوں اور ٹیکٹونک پلیٹوں کی دریافت کے لئے بنیادوں کا کام کیا اور ارضیاتی سائنس کی دنیا بدل ڈالی۔ ہیری ریڈ بالٹی مور میں پیدا ہوا تھا…بھیرے یا بہاولپور میں نہیں۔باقی چند مثالیں اگلی قسط میں۔ آپ ابھی سے اس اہم سوال کا جواب ڈھونڈنا شروع کردیں کہ ایجاد و اختراع، تخلیق و تحقیق کا سارا معاملہ صرف چند ملکوں تک ہی محدود کیوں ہے؟ اور باقی دنیا صرف نقالوں اور طفیلیوں پر مشتمل کیوں ہے؟
تازہ ترین