• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نیب‘‘ کے بارے میں رنگ برنگی سنتا، پڑھتا رہتا ہوں لیکن میرے اندر کہیں یہ بات بہت بھاری طریقے سے بیٹھ گئی ہے کہ ’’نیب‘‘ اِس لئے ٹھیک ہے کہ سیاستدان اُس کے خلاف گینگ اپ ہو گئے ہیں۔

کیا ہم ہر دوسرے، تیسرے دن یہ خبر نہیں پڑھتے کہ فلاں سیاستدان سے اربوں روپے کی زمین واگزار کرا لی گئی ہے تو یہ سب کیا ہے؟دوسری طرف یہ کتنی دلچسپ دلیل ہے کہ ’’نیب‘‘ نام نہاد کاروباریوں پر ہاتھ ڈالے تو وہ سارا کچھ سمیٹ، سکیڑ کر بچی کچھی اکانومی کا بھی تیایا پانچا کر دیں گے۔ کارٹیلائزیشن اور بلیک میلنگ اور کیا ہوتی ہے؟ ’’نیب‘‘ میں نقص ہوں گے، کمزوریاں ہوں گی تو اُن کے پنجے، جبڑے ضائع کئے بغیر اُنہیں درست کر لیں، بہتر کر لیں لیکن ’’نیب‘‘ کے بارے اک خاص قسم کا زہریلا پن کم از کم میری سمجھ سے بالکل باہر ہے۔چیئرمین ’’نیب‘‘ کا اک تازہ بیان سپر لیڈ کی شکل میں میرے سامنے ہے۔ ’’دھیلے نہیں اربوں کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ ’’نیب‘‘ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 714ارب قومی خزانے میں جمع کرائے۔ غربت، افلاس اور تعلیم کی سہولیات کی زبوں حالی کی وجہ منی لانڈرنگ۔ مضاربہ کیسز ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی۔ بھاری منافع کا لالچ دے کر جمع پونچی لوٹی گئی۔ وائٹ کالر اور سٹریٹ کرائم میں فرق ہوتا ہے‘‘۔کوئی مجھ کو دن کو یہ سمجھائے کہ چیئرمین ’’نیب‘‘ کے اِس بیان میں کیا غلط ہے؟ مجھے ذاتی طور پر اِس بات میں بھی قطعاً کوئی شک نہیں کہ ’’تبدیلیٔ آب و ہوا‘‘ کے لئے ’’نیب‘‘ کا ناروا اور غلط استعمال بھی ہوتا ہوگا تو بھائی! میں اپنے ’’اجتماعی کردار‘‘ کو کہاں لے جائوں کہ غلط، ناجائز بلکہ ابلیسی استعمال تو پاکیزہ اور پوتر ترین چیزوں کا بھی ہوتا ہے اور عام ہوتا ہے۔ مِس یوز کرنے والے تو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسی مثبت چیزوں کے بھیانک استعمال سے بھی باز نہیں آتے۔ دنیا میں کون سا ایسا ’’خیر‘‘ ہے جسے انسان نے کبھی بطور ’’شر‘‘ استعمال نہ کیا ہو۔ سمری اِس سارے سیاپے کی یہ ہے کہ ’’نیب‘‘ کی جتنی ڈینٹنگ، پینٹنگ ہو سکتی ہے، ضرور کرو۔ اُس کی ’’کاسمیٹک سرجری‘‘ کرکے اُسے زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول ضرور بنائو لیکن اُس کی ’’روح‘‘ یعنی احتساب کی اہلیت پر کمپرومائز کئے بغیر۔چیئرمین ’’نیب‘‘ کی یہ بات سو فیصد درست ہے جس پر ہر شے قربان کی جا سکتی ہے کہ ... ’’غربت، افلاس اور تعلیمی سہولیات کی زبوں حالی کی وجہ منی لانڈرنگ و دیگر اقسام کی کرپشن ہے‘‘۔یاد رہے ’’اپنا ملک‘‘ غیرمعمولی طور پر ذہین، محنتی اور قابل لوگوں کی ’’ضرورت‘‘ نہیں ہوتا کیونکہ پوری انسانی تاریخ اِس بات کی گواہی میں پیش کی جا سکتی ہے کہ غیرمعمولی قسم کے لوگ دنیا کے جس حصے اور خطے میں بھی قدم رکھتے ہیں، اپنی کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑ کر اپنا آپ منوا لیتے ہیں۔ اپنا ملک تو ضرورت ہی عام آدمی، کمزور آدمی، اوسط درجے کے آدمی کی ہوتا ہے جو اُس پر ’’احسان‘‘ کر سکے کیونکہ ’’احسان‘‘ کا اصل مطلب ہی کسی کی کمی کو دور کرنا ہوتا ہے۔ میں سو فیصد اپنے بل بوتے پر زندہ نہیں رہ سکتا تو میرا ملک آگے آئے اور میرا سہولت کار بنے، میرا مددگار بنے تو وہ ’’میرا‘‘ ملک ہے، ’’میری‘‘ ’’ریاست‘‘ ہے جو ماں کی طرح میرٹ سے بھی آگے دیکھتی ہے اور اگر نہیں دیکھتی تو وہ ’’سوتیلی ماں‘‘ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ 73سال بعد بھی اگر عام آدمی کو غربت، افلاس اور جہالت جیسے طاغوتی تحائف کے علاوہ اور کچھ نہیں مل سکا بلکہ اُلٹا اِس آدم خور نظام نے اُس کی نسلیں تک غیروں کے پاس رہن رکھ دی ہیں تو پھر یہ سب کیا ہے؟بغیر کسی وجہ کے جانور بھی خود کو نہیں کھجلاتا، انسان بھی خارش نہیں کرتا، بغیر پیاس کے احساس کے جاندار پانی جیسے تحفے کی طرف نہیں لپکتا تو حصولِ پاکستان، قیامِ پاکستان کے پیچھے دی گئی، لی گئی ہولناک قربانیوں کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی یا نہیں؟ آزادی آزادی کی رَٹ لگائی ہوئی ہے جبکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اِس ملک کا عام آدمی تھانے سے لے کر کچہری تک، غربت سے لے کر جہالت تک کا قیدی اور غلام ہے۔ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں اور یہ دھوکہ کب تک دیا جا سکے گا؟ آج نہیں تو کل لاکھوں مربع میل پر مشتمل یہ پریشر ککر پھٹ گیا تو کون سے مافیاز، کیسی کارٹیلائزیشن؟ کہاں کے ملی نغمے؟73سال کی باٹم لائن؟ صرف، صرف اور صرف غربت، جہالت اور تہہ در تہہ غلامی لیکن بربادی بھنگڑا پورے زور و شور سے جاری ہے۔صرف ’’نیب‘‘ برا اور کسی میں کوئی عیب نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین