• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں 18ویں ترمیم کے بعد کئی قانونی اصلاحات کی گئیں لیکن کئی اہم ترین شعبوں کی ترقی کے ذریعے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ جن شعبوں میں ترقی اور اصلاحات کو یکسر نظرانداز کیا گیا اُن میں ایک سیاحت بھی شامل ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ سیاح امریکہ جاتے ہیں جس سے امریکہ کو 214ارب ڈالر سالانہ کی آمدنی حاصل ہوتی ہے، دوسرے نمبر پر یورپی ملک اسپین آتا ہے جس کی سیاحت سے سالانہ آمدنی 79.9ارب ڈالر ہے۔ امریکہ کے مشہور زمانہ بزنس میگزین فوربز کے مطابق سیاحت پر انحصار کرنیوالے ٹاپ ٹین ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جہاں ہر 100 سیاحوں کی وجہ سے 154افراد کو روز گار مل سکتا ہے۔ اِس فہرست میں پہلے نمبر پر بنگلہ دیش ہے سو سیاحوں پر 944اور دوسرے نمبر پر بھارت میں 100سیاحوں کی وجہ سے 172افراد کو روزگار ملتا ہے۔ سیاحت کے حوالے سے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 45لاکھ مقامی افراد سیروسیاحت کیلئے ملک کے مختلف علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔ اِن تمام اعدادوشمار سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ٹورازم انڈسٹری کے فروغ کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے جاتے تو آج ملک میں بیروزگاری کی شرح میں کافی حد تک کمی اور اِس انڈسٹری سے چلنے والے کاروبار سے آمدن کے ذرائع خاطر خواہ حد تک بڑھائے جا سکتے تھے۔ موجودہ حکومت نے ثقافتی یا تاریخی، اِس انڈسٹری کے فروغ کو اپنی اہم ترجیحات میں شامل کرنے کے ساتھ سیاحوں کی دلچسپی اور اُنہیں سہولتوں کی فراہمی کیلئے اصلاحات کا عمل شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کئی مقامات ایسے ہیں جنہیں ورلڈ ہیرٹیج (عالمی ورثہ) قرار دیا گیا ہے۔ پنجاب کی افسر شاہی نے بھی سیاحت کے فروغ کے حوالے سے اصلاحات میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ پنجاب میں نئی اصلاحات کرتے ہوئے سیاحت کے محکمے کو وزارتِ کھیل و امورِ نوجواناں سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ چند ماہ قبل یہ تینوں محکمے ایک ہی وزارت کا حصہ تھے جس کی وجہ سے سیاحت کے فروغ کیلئے گزشتہ کئی دہائیوں سے عدم توجہی کے باعث کوئی کام نہ ہو سکا۔ محکمہ سیاحت کا علیحدہ سیکرٹری لگا دیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے اصلاحات کے عمل کا آغاز کرنے کے ساتھ ساتھ 2نئے قوانین کی بھی منظوری دی ہے جس میں پنجاب ٹورسٹ گائیڈ ترمیمی (ایکٹ) 2020اور پنجاب ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ ترمیمی ایکٹ 2020 شامل ہیں۔ پنجاب میں سیاحوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بننے والے یہ پہلے قوانین ہیں۔ اِس سے قبل پنجاب میں سیاحت کے حوالے سے اِن بنیادوں پر کوئی قانون نہ تھا اور وفاقی حکومت کے 1976کے قانون کے مطابق ہوٹلوں اور ریستورانوں کی رجسٹریشن کی جاتی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ آف ٹورسٹ سروسز جیسی کوئی مانیٹرنگ اتھارٹی نہ تھی جو ہاسپٹیلیٹی سیکٹر پر قانون کے نفاذ کا اختیار رکھتی ہو۔ ٹورسٹ گائیڈ ترمیمی ایکٹ 2020کے تحت صوبے کے تمام ہوٹلوں کو سہولیات کی بنیاد پر 1تا 5کیٹیگریوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اِس قانون میں سیکشن 8اے کو شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق حکومتِ پنجاب کو ڈیپارٹمنٹ آف ٹورسٹ سروسز کے ساتھ رجسٹر نہ ہونے والے ہوٹل کو سیل کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔ اِسی قانون کے سیکشن 25کے مطابق مختلف سطح پر شکایات کے ازالے کیلئے اپیل کا حق بھی دے دیا گیا ہے۔ سیکشن 19میں ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق ڈیپارٹمنٹ آف ٹورسٹ سروسز کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 30دنوں میں رجسٹریشن کروانا ہوگی۔ پچھلے 44سال میں وفاقی حکومت کے 1976کے قانون کے مطابق خلاف ورزی پر صرف 5سو سے 5ہزار تک جرمانہ تھا جو بڑھا کر 1لاکھ سے 5لاکھ روپے تک کر دیا گیا ہے۔ رجسٹریشن نہ کروانے والے ہوٹلوں کو سیل کرنے کیلئے پولیس ٹورسٹ سروسز کے ڈپٹی اسسٹنٹ کنٹرولر کو مدد فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔ 2011میں 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد 2019میں خیبر پختونخوا نے سیاحت کے حوالے سے اپنا قانون بنایا جبکہ سندھ 2013میں قانون بنا چکا ہے۔ پنجاب پیچھے رہ گیا تھا جسے موجودہ حکومت اور بیورو کریسی نے خاص دلچسپی لیکر مکمل کیا۔ پنجاب میں 2016کے دوران بھی یہ قانون بنانے کی کوشش کی گئی لیکن محکمہ قانون نے چند اعتراضات اٹھائے جنہیں دور کرنے کیلئے کچھ نہ کیا گیا۔ سیاحوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ڈیپارٹمنٹ آف ٹورسٹ سروسز کا پنجاب ٹریول ایجنسیز ترمیمی ایکٹ 2020کا ڈرافٹ تیار کرکے کابینہ کی کمیٹی کو بھجوایا جا چکا ہے جو جلد منظور ہو جائے گا۔ اگر دیکھا جائے تو افسر شاہی نے ہی موجودہ حکومت کو باور کرایا کہ سیاحت کو اہمیت دینے سے لوگوں کو روزگار دینے کے علاوہ ملک کو اربوں روپے کے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو بھی بلاشبہ یہ کریڈٹ ملنا چاہئے کہ اُس نے سیاحتی اصلاحات کیلئے نئے قوانین بنانے اور ترامیم کے حوالے سے افسر شاہی کی تجویز کردہ پالیسیوں کو پولیٹکل اونر شپ دی۔ محکمہ ٹور ازم کے سیکرٹری سمیت دیگر تمام اعلیٰ افسران بھی گزشتہ 44سال پرانے قوانین میں تبدیلی پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

تازہ ترین