• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیامِ پاکستان فقط ایک شخص کی تعلیم کی نرم و گداز طاقت کی اہمیت برائے مسلمانانِ ہند کے ادراک کا مرہون منت ہے۔ ہر زمانے اور علاقے کی تاریخ متنازعہ موضوعات سے بھری ہوتی ہے لیکن تاریخ کے کچھ پہلو، اسباق و نتائج اٹل بھی ہوتے ہیں، وہ ہی اصلی ’’تاریخی حقیقت‘‘ ہوتی ہے۔ آج کے ’’بیمار پاکستان‘‘ کی ’’تاریخی حقیقت‘‘ یہ ہی ہے کہ اُس کا نقطہ آغاز (Genesis)علم و فضل کے اک سفر بےکراں سے شروع ہوا، جو قیامِ پاکستان پر منتج ہوا۔ تعمیرِ پاکستان بمطابق مقاصدِ پاکستان کو بھی ایک بڑے کاروانِ علم کی ضرورت، شدت سے مطلوب ہے۔ وائے بدنصیبی حصولِ پاکستان کے بعد ہم بحیثیت (برصغیر کی) نومولود مسلم ریاست کے حاصل مملکت کو تحریک پاکستان کی طرح تعلیم سے جوڑے رکھنے میں ابتدا سے ہی ناکام ہو گئے۔ پچاس برسوں کے بعد ہمیں ہوش آیا۔ آیا بھی نہیں دلایا گیا ہے (یہ دلانے کی ایک الگ کہانی ہے) کہ گورننس اور تعلیم کا باہمی رشتہ کیا ہے۔ ابھی 20/22سال میں بہت محدود پیمانے پر ادراک پیدا ہوا ہے کہ ہمارے تمام قومی المیوں، ابتری، مشکلات اور موجود مجموعی حالت کی جڑ ’’بیڈ گورننس‘‘ ہے۔ ’’آئینِ نو‘‘ میں تبدیلی کا ’’سونامی‘‘ آنے سے کئی سال پہلے سے قومی مسائل کے مطلوب حل کے لئے ’’گڈگورننس‘‘ کی سکت برابر تکرار تو کی گئی، یہ بیان حق ہمارے قومی ابلاغ میں کچھ جگہ بنا چکا تو شعوری کوشش کی گئی کہ اسے مدہم نہ ہونے دیا جائے۔ تبدیلی کا سونامی اسٹیٹس کو کے پلے پردوں میں لپیٹ لپٹا کر آگیا تو، ’’آئینِ نو‘‘ میں سکت برابر پھر زور لگایا گیا کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے پردے پلوں کو طریقے سلیقے سے اُتار پھینکنے اور ’’سونامی‘‘ گورننس کو جلد سے جلد ’’تعلیم و تحقیق‘‘ سے جوڑنے کا اہتمام کیا جائے۔ ’’سونامی‘‘ کے وارد ہوتے ہی راہ بھی دکھائی گئی۔ اِس کی تکرار بھی مچائی لیکن طاقت ور اسٹیٹس کو کی اپنی جکڑ ہے۔ ماتم ہی رہ گیا ہے جو اس صورتحال پر کیا جائے لیکن بندے کے سیاسی انداز فکر میں نہ مذہب و مسلک میں ماتم شامل ہے نہ مایوسی، سو ’’سونامی تبدیلی‘‘ پر ماتم کریں گے نہ مایوسی، ہم اور ہمارے ہم عقیدہ بیمار پاکستان میں بھی سفر جنوں جاری ر کھیں گے۔ ہمیں حوصلہ دینے والے اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی طاقت سے عملاً ٹکرا جانے والوں کا چھوٹا سا قافلہ رواں دواں ہے جو ہمیں مایوسی میں ڈوبنے دیتا ہے نہ ماتم کی نوبت آنے دیتا ہے۔ کل نفس ذائقۃ الموت، اللہ کی امانت تھی، رب العالمین کو لوٹ گئی، لیکن ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کارروان علم کا قافلہ تیار کرکے اسے سفر جاریہ پر ڈال گئے۔ مرحلہ وار کامیابیاں حاصل کرتے بھری پائپ لائن سے مقاصد کا حاصل تیز تر ہوا تو قافلہ سفر کو جاری و ساری رکھنے کی سکت حاصل کر چکا اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی علم کی کتنی ہی شمعیں روشن کرکے جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ سفر کو سفر جاریہ میں بدل کر رخصت ہوئے۔ سفر کا آغاز انتہائی غریب گھرانوں کے تعلیمی قابلیت کے حامل چند طلبہ کو اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم کے حصول میں رکاوٹیں ختم کرنے سے ہوا۔ جہان فانی کا سفر ختم ہوا تو 2003میں فقط اپنے ایمان و عز م سےتیار کیا گیا ’’کارواں علم‘‘ 6820غریب ترین طلبہ کو تعلیمی وظائف تقسیم کرکے انجینئرنگ، میڈیکل، سائنس و ٹیکنالوجی، افواج پاکستان، سرکاری و غیر سرکاری قومی اور بین الاقوامی اداروں کے لئے ابتدائی ہزاروں باکمال پروفیشنلز کی کھیپ تیار کرکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دے گئے۔ اس سے قبل انہوں نے اپنے مثالی برادر الطاف قریشی کی معیت میں پاکستان کی نظریاتی صحافت کا موثر ترین ابلاغی مورچہ تیار کرنے میں مثالی معاونت کی۔ اللہ قریشی برادران کی قومی خدمات اور قائم کی گئی اعلیٰ انسانی اقدار کے ورثے کو جلا بخشتا رہے۔ اور ڈاکٹر اعجاز حسن کو جنت الفردوس میں بلند درجہ عطا فرمائے۔ آمین۔

ماہ رواں میں 50سال قبل علم کے اطلاق سے محروم گورننس سے دولخت ہو گیا تھا۔ باقی ماندہ پاکستان بھی تمام تر وسائل ہونے کے باوجود ’’امیر بیمار‘‘ ہی ہے تو وجہ وہی ہے جو دیدہ ور پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کی بنی لیکن علم کی نرم و گداز طاقت سے پاکستان بس اللہ کے رحم و کرم اور شہدا پاکستان کی قربانیوں سے ایٹمی طاقت بھی بن گیا۔ ڈاکٹر اعجاز قریشی چلے گئے تو کیا غم ہے۔ اللہ سلامت رکھے، ڈاکٹر امجد ثاقب تو موجود ہیں اور ان کا تیار قافلہ بھی تو رواں دواں ہے۔ گزشتہ روز ’’اخوت کالج‘‘ کے وسیع و عریض لان پر چمکتے دمکتے سورج کی گداز دھوپ میں کورونا کرائسس کے مایوس کن ماحول میں بھی سجائی محفل کے شرکا میں اتنا حوصلہ بانٹا کہ برکات و ثمرات کے حصول کا یقین ایمان بن گیا۔ ناچیز کی ذاتی رائے میں عبدالستار ایدھی مرحوم، اخوت فائونڈیشن کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب پاکستان کی 72 سالہ تاریخ کے سب سے بڑے ’’چینج ایجنٹ‘‘ ہیں جنہیں عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ مطلوب تبدیلی، طاقتور ’’اسٹیٹس کو‘‘ سے تنہا راستہ نکال کر مطلوب تبدیلی کا راستہ بنانے والی تبدیلی، ڈاکٹر امجد ثاقب تخفیف غربت کے مشن پر ایک حاجت مند خاتون کی مالی مدد کرکے انہیں مستقل روزگار کے قابل بنا کر ’’مواخات مدینہ‘‘ سے سرشار ہو کر اپنی ’’افسر شاہی‘‘ کو ترک کرکے خاتمہ غربت کے انہونی سے مشن پر نکلے اور غرباء وطن کے 40غریب پاکستانی گھرانوں کو ایک کھرب 25ارب روپے کے اختراعی (Innovative) قرض ہائے حسنہ سے نوازکر دنیا میں نجی شعبے سے ’’مائیکرو فنانس بزنس‘‘ کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئے۔ یہ ریکارڈ بھی قائم کیا کہ قرضوں کی واپسی کی شرح 99.9فیصد کے قریب ہے۔ اب وہ تخفیف غربت میں اپنا کار عظیم پوری قوم سے تسلیم کرا کر کثیر الجہت فلاحی مشن پر نکل آئے ہیں۔ معاشرے کو علم سے نواز کر تعمیر پاکستان کی راہ تراشنے کا مشن۔ اُن کا کہنا ہے کہ سرسید کی مسلمانوں سے حاصل چندے پر قائم علی گڑھ یونیورسٹی کا حاصل قیامِ پاکستان ہوا۔ بلاشبہ مسلم گڑھ علی گڑھ اسکول آف تھاٹ سے مسلم لیگ قائم ہوئی اور اسے حاصل علمی کارواں مسلمانان ہند نے علم و ابلاغ کی طاقت سے پاکستان بنا دیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کراچی، لاہور، فیصل آباد اور چکوال میں کالج اوریونیورسٹی سطح کے قرض حسنہ حصول تعلیم کے اختراعی ماڈل پر قائم تعلیمی ادارے بنا کر کمال کر دیا۔ قصور میں قائم اخوت کالج کو وہ تعمیر پاکستان کی یونیورسٹی بنانے کا عزم لئے ہوئے ہیں۔ یہ پاکستان کی پہلی اقامتی یونیورسٹی ہوگی۔ کالج میں پاکستان کے پانچوں صوبوں اور آزاد کشمیر کے 50اضلاع سے 14زبانیں بولنے والے 15فیصد (ہر صوبے سے) بچے زیر تعلیم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے زیر تعمیر یونیورسٹی کی تکمیل کے لئے ایک ہزار فی اینٹ کا مالی تعاون مقرر کرکے پاکستانیوں کے لئے دین و دنیا سنوارنے اور خدمت انسانی کا عظیم موقع فراہم کیا ہے۔ آئیں سب مل کر پہلے تو یہ کہیں کہ قدم بڑھائو امجد ثاقب ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

تازہ ترین