• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا آپ نے کبھی بی اے یا ایم اے کی ڈگری کو غور سے پڑھا ہے ،اس میں کیا الفاظ درج ہوتے ہیں ؟ اس میں لکھا ہوتاہے کہ فلاں شخص نے اتنے نمبر حاصل کرکے فلاں امتحان پاس کر لیا۔یعنی ڈگری دراصل اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ کسی شخص نے کتنی جماعتیں پڑھ رکھی ہیں تاہم کسی بھی ڈگری میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ امتحان پاس کرنے کے بعد اس شخص کو ”با شعور“ بھی سمجھا جائے ۔تعلیم یافتہ اور با شعور ہونے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ان پڑھ اور جاہل ہونے میں۔جس طرح یہ ضروری نہیں کہ بی اے پاس شخص با شعور بھی ہوبالکل اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ رسمی تعلیم سے نابلد شخص جاہل ہو۔ہمارے ہاں جو شخص چار جماعتیں پاس کر کے تعلیمی سند حاصل کر لیتا ہے وہ اپنے آپ کو ان سے افضل سمجھنے لگتاہے جو کسی سکول کالج سے پڑھے نہیں ہوتے اور جو ضرورت سے زیادہ پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ انواع و اقسام کی اسناد سینے پر سجا کر پھولے نہیں سماتے ،انہیں تعلیم کا ہیضہ اور علم کا تکبر ہو جاتا ہے ۔ان پڑھے لکھوں کو یہ زعم ہو جاتا ہے کہ خدا نے صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت صرف انہی کو ودیعت کی ہے ،چونکہ وہ معاشرے کا با شعور طبقہ ہیں لہٰذا معاشرے کو ان کی سوچ کے مطابق پروان چڑھنا چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر وہ معاشرہ ڈنگروں کا معاشرہ ہے ،اس میں رہنے سے بہتر ہے بندہ کینیڈا والی خالہ کے پاس چلا جائے ۔
حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں یہ کلاس ابھر کر سامنے آئی ہے ،یہ وہ لوگ ہیں جو ووٹ ڈالنے کوnon senseسمجھتے تھے ،ان کے خیال میں جمہوریت اور سیاست دانوں کی خرافات دراصل جاہل عوام کو بے وقوف بنانے کا عمل ہے اور وہ چونکہ پڑھے لکھے ہیں لہٰذا اس احمقانہ عمل کا حصہ نہیں بن سکتے ۔یہ لوگ اس بات کو اپنی توہین سمجھتے تھے کہ ان سے کم پڑھا لکھا شخص اسمبلی میں جا کر ان کی نمائندگی کرے !ان کے نزدیک لسّی پینے والا ”چودھری اللہ وسایا“ ایک ”bloody rogue“ہے، ایسے اجڈ کو کیا پتہ کہ نظام مملکت کیسے چلتے ہیں !ہم سے پوچھو ہم بتائیں گے کہ ملک کیسے چلایا جاتا ہے ،گورننس کس چڑیا کا نام ہے ،مینجمنٹ کی جدید تکنیک کیا ہے ،پولیٹیکل اکانومی کسے کہتے ہیں !یہ وہ کلاس تھی جسے ”جاہل عوام“ گھاس نہیں ڈالتی تھی لہٰذا یہ اپنے ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھ کر غم غلط کرتے رہتے تھے ۔بہت تیر مارا تو کوئی این جی او بنا لی یا پھر ایک ایسا تھنک ٹینک تشکیل دے دیا جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوتا تھا کہ ”ٹینکوں والوں“ کا انتظار کیا جائے !
جمہوریت سے انہیں خدا واسطے کا بیر تھا ،یہ خود چونکہ فائیو سٹار ہوٹلوں میں برمودہ پہننے والی مخلوق تھی سو انہیں اس بات سے ہی گھن آتی تھی کہ گلی محلوں میں جا کر کسی نتھو قصائی یا شیدے موچی سے معانقہ کرنے کے بعد اس سے ووٹ کا تقاضا کیا جائے …what rubbish!یہ تو اپنے ڈرائیور سے ہاتھ ملانے کے بعد sanitizer سے ہاتھ دھونے کے عادی تھے کجا کہ کسی موچی یا نائی سے جپھی ڈال لیں۔چونکہ اسمبلی میں منتخب ہونے کے لئے ”جاہلوں“ کو گلے لگانا پڑتا تھا اس لئے جب بھی ملک میں کوئی فوجی ڈکٹیٹر آتا یہ اس کی حمایت میں سب سے پہلے کھڑے ہو جاتے ، فوجی آمر ان کی کلاس سے تعلق رکھنے والا اور انہی کی بولی بولنے والا حکمران ہوتا جس سے وہ اپنے آپ کو باآسانی relateکر لیتے۔اس کی سب سے بہترین مثال پرویز مشرف کی ہے ۔ اس نام نہاد فارن کوالیفائڈ پڑھے لکھے طبقے نے اس کا بھرپور ساتھ دیا (اور اب تک فیس بک پر اس کے گن گاتے ہیں )فوجی آمر کسی کو جواب دہ ہوتاہے اور نہ اس نے کہیں سے انتخاب لڑنا ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے ہاتھوں سے چن کر اس پڑھی لکھی اشرافیہ میں سے عطا الرحمن ،عمر اصغر خان، شوکت عزیز اورجاوید جبار جیسے لوگوں کو اپنی کابینہ میں شامل کرتا ہے اور برینڈڈ عینکیں لگانے والی یہ اشرافیہ خوش ہو جاتی ہے کہ انہیں بدبودار جاہلوں کو گلے لگائے بغیر ہی ملک کی تقدیر بدلنے کا موقع مل گیا۔ملک کی تقدیر انہوں نے کیا بدلنی تھی ،یہ تو وہ کلاس تھی جس کے نزدیک اپنی کرپشن جائز،اپنا سٹیٹس جائز اور اپنی دوہری شہریت جائز تھی …ان کے تئیں اگر کوئی بات ناجائز تھی تو وہ یہ کہ جاہل عوام کو ووٹ کی شکل میں فیصلے کا حق کیوں حاصل ہے!
اس سارے کھیل میں صرف ایک قباحت تھی کہ ان پڑھے لکھوں کو عوام کی حمایت نہیں حاصل ہو پاتی تھی ۔آخر یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا ۔انہیں ایک ایسا لیڈر مل گیا جوانہی کی طرح پڑھا لکھا تھا،بہترین انگریزی بول سکتا تھا،بین الاقوامی فورم پر بلیک سوٹ اور ریڈ ٹائی لگا کر گوروں کو آڑے ہاتھوں لے سکتا تھا،کرشماتی شخصیت کا مالک تھا،خواص میں ہی نہیں عوام میں بھی مقبول تھا۔اس لیڈر کی شکل میں اس پڑھی لکھی کلاس کو امید نظر آئی ،انہیں لگا کہ اس شخص سے وہ با آسانی relateکر سکتے ہیں ،جونہی اس پڑھے لکھے طبقے کو اس لیڈر کی شکل میں عوامی پذیرائی ملی ،یہ کلاس جذباتی ہو گئی ۔جو شخص اس سے اختلاف رائے کرتا ،اس پر بے تکان کرپٹ ہونے کا الزام لگانے کے ساتھ گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے اور یہ سب کچھ اس نام نہاد پڑھے لکھے طبقے نے کیا ،کسی موچی ،نائی ،دھوبی یا مالی نے نہیں کیا۔پہلی دفعہ ان لوگوں نے الیکشن میں لائن میں لگ کر”نو مسلموں“ کے سے جذبے سے ووٹ ڈالا،ان کا خیال تھا کہ جب بیلٹ باکس کھولے جائیں گے تو ان کے ووٹوں پر لکھا ہو گا کہ ”یہ ایک پڑھا لکھا ووٹ ہے لہٰذا باقی سب پر بھاری ہے۔“ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا،عوام کے اجتماعی شعور نے تاریخی اور دو ٹوک فیصلہ دیا تاہم ان پڑھے لکھوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اور انہوں نے اس بچے کی طرح سڑک پر بلا پھینک کر ریں ریں شروع کردی جو بولڈ ہونے کے بعد کہتا ہے ”یہ روندی ہے ،میں نہیں کھیلتا۔“ان لوگوں نے چونکہ پڑھ لکھ کر صرف گالی دینا ہی سیکھا ہے اس لئے ہارنے کے بعد بھی انہوں نے گالیاں ہی دیں ،خود احتسابی نہیں کی۔ا ب یہ لوگ گالیاں دینے اور رونے دھونے کے ساتھ ساتھ ایک پروپیگنڈا یہ کر رہے ہیں کہ چونکہ خیبر پختونخوا میں عوام نے ان کی مرضی کا فیصلہ دیا ہے لہٰذا صرف وہاں کے عوام با شعور ہیں باقی جاہل ہیں ۔اب اس بات کا کیا کریں کہ 1946ء میں اسی با شعور صوبے نے کانگریس کو ووٹ دئیے تھے اور یہاں سے قائد اعظم کی مسلم لیگ ہار ی تھی۔ لہٰذا با شعور ہونے کی یہ دلیل اپنے پاس ہی رکھئے تو بہتر ہے ،پنجابی ،سندھی، پشتون اور بلوچ سب ہی با شعور ہیں اور سب نے اس کا اجتماعی طور پر ثبوت بھی دے دیا ہے ۔
اس پڑھی لکھی کلاس کے ساتھ اتنی بری نہیں ہوئی جتنا انہوں نے واویلہ کیا ہے ،اگر وہ ٹھنڈے دماغ سے غور کریں تو انہیں پتہ چلے گا کہ عوام نے ان کے نعروں کو اچھے خاصے ووٹ دئیے ہیں لیکن یہ لوگ چونکہ شدید قسم کے تکبر کا شکار ہیں ،انہوں نے اسی عوام کو جاہل کہنا شروع کردیا ہے جنہوں نے اس کلاس کے لیڈر کو لاکھوں ووٹ دئیے ہیں۔اس کلاس میں اتنا صبر و تحمل نہیں کہ یہ جدو جہد جاری رکھ سکیں ،انہوں نے کینیڈا کی امیگریشن اپلائی کر رکھی ہے ،چند مہینوں تک ”This country has gone to dogs“ کہتے ہوئے یہ لوگ فلائی کر جائیں گے اور بقایا فیس بک پر اپنی ”جدو جہد“ جاری رکھیں گے۔
تازہ ترین