• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ناکامی میں متاعِ کارواں نہیں احساسِ زیاں اہم ہے۔ احساسِ زیاں کو ٹٹولیے۔ اگریقین محکم رہا، عزم متزلزل نہ ہوا تو آنے والاکل ”نئے پاکستان“ کی بشارت دے گا۔ یوں تون لیگ کو آنے اور جانے کی جلدی رہتی ہے۔ ٹھہر بھی گئے تو 5 سال تو کٹ ہی جائیں گے ۔خاکم بدہن وطن ِعزیز بارے خلجان بدرجہ اتم موجود رہے گا۔
انتخابات سے قبل (8 مئی 2013 ) کے کالم میں بڑی صراحت کے ساتھ لکھا تھا ۔ ”انتخابات شفاف نہیں ہو رہے۔11/ مئی کو پرانا نظام ہی واپس آئے گا۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے 11/ مئی کی رات کو سرپکڑ کر بیٹھے ہوں گے۔ ہزاروں امیدوارآئین ِ پاکستان کا تمسخر اڑا کر انتخابی عمل کا حصہ بن چکے۔ ان حالات میں عوام کی عافیت اسی میں ہے کہ اپنی ضرورت اور سہولت کا نمائندہ چنیں۔۔ اغیار کی خواہش ہے کہ حکومت مسلم لیگ ن ہی بنائے۔ گو اسٹیبلشمنٹ آج بھی ن لیگ کو سوہانِ روح سمجھتی ہے البتہ قسمت کا لکھا جان کر طوعاًو کرہاًقبول کرے گی۔ انتخابات کے بعد غلامی کا طوق برقرار رہے گا۔امریکی اثرو رسوخ مزید بڑھے گا۔ میڈیا مہم میں جن لوگوں پر نشانہ تاکا جا رہا ہے وہ ہمارے ہم وطن ہی تو ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اگلی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف فوج کی تعداد میں کیا کمی لاتی ہے۔ امریکہ بھی ہندوستان کو پاکستان کا سمدہی بنانا چاہتا ہے اور عسکری طاقت کو پیاء گھر بھیجنا چاہتا ہے۔ عوام پرانی تنخواہ پر ہی کام کریں گے“۔
بالآخر 11/ مئی کاقومی ناٹک ختم ہوا۔ سارے کرداروں نے اپنا اپنا ایکٹ خوب نبھایا ۔ ”ہدایتکار“ بھی یہاں سے کوسوں دور خوب محظوظ رہا۔
پچھلے کئی کالموں میں یہی آہ و بکا رہی کہ نتائج وہی ہوں گے جس کی منصوبہ بندی خلیجی ممالک اور مغرب میں طے پاچکی ۔قائد ِ محترم جس ادب و احترام سے ریاض کو سلام کرتے رہے وہ سامراج کی اسکیموں پر مہر ہی تو ثبت کرتی تھیں۔ آنے والے دنوں کا نوشتہ ِدیواربھی پڑھ لیں۔ (i)کمر توڑ مہنگائی ( ii ) بجلی، گیس ناپید (iii)صنعتیں اور کاروبار متاثر، بے روزگاری عام ، غربت چار سو(iv) حکمرانوں کے ذاتی کاروبار کو چار چاند (v)کراچی، بلوچستان حالت ِجنگ میں اورافواجِ پاکستان دھمکیوں کے نرغے میں۔
ن لیگ کے پاس پچھلے 25 سال کی بے قاعدگیوں اور ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کا سنہری موقع ضرورہے لیکن ان کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ اس بڑھاپے میں بھی سبق نہیں سیکھے گی ۔ آنے والا وقت PTI کے لیے بھی ایک سنہری موقع ہے ۔ میری غرض ہے بھی PTI سے ۔
17 سالPTI کے ساتھ ہی ذہن الجھائے رکھا۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ نالائقیوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ یہ ثابت ہو گیا کہ سونامی کافی نہیں عقل، فہم اور شعور بھی چاہیے تھا ۔”نعرہ تبدیلی “نے جمِ غفیرتواکٹھا کر لیا لیکن انتخابی نتائج کو اپنے حق میں نہ ڈھال سکا ۔ ہاں قوم کے دل کی ”آہ “ضرور بن گیا ۔ ”نعرہ “ کی طاقت ِپروازدیدنی رہی۔زمین پر ڈھب سے پاؤں تونہ جمے لیکن ساتویںآ سمان کوضرور چھو لیا۔ آج انتخابی شکست کے باوجود ملک و ملت کے اعصاب پر تبدیلی کا نعرہ سوار ہو چکا۔ انتخابی عمل سے لاکھوں جنونی کارکن ، درجنوں رجالِ فہم و فراست کارواں کی طاقت بن چکے ہیں۔ عمران خان کو آج الیکشن کے بائیکاٹ اور انتخابی عمل کا حصہ بننے کا فرق معلوم ہو چکا ہوگا۔ انتخابی عمل کی شب وروز محنت نے ”نیا پاکستان“ کے بیج کی بنجر زمین میں تخم ریزی ممکن بنادی ہے۔ اگر بے ہنگم سیاسی فیصلے آڑے نہ آتے تو قوم تومائل بہ کرم ہو چکی تھی یہ قیادت ہی تھی جو سائل نہ بن سکی ۔
ہسپتال سے عمران نے اپنے پیغام میں اعتراف کیا ”کہ ہم سے کچھ غلطیاں ہوئیں“۔ غلطیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے اگر خود احتسابی کوشعار بنا لیا اور تدبیر سے کام لیا۔ بدنیت اور بری شہرت والے خواتین و حضرات کو پچھلی صفوں میں بھیجنا ہوگا۔جن لوگوں نے پست فطری کا مظاہرہ کیا ایسے لوگوں سے چھٹکارے بغیر کنواں پاک نہیں ہو گاچاہے 70 چھوڑو ہزار بالٹیاں نکال باہر پھینکو۔
30 اکتوبر کے جلسے کے چنددن بعدعمران خان کے گوش گزار کیا تھا کہ پارٹی نفسیاتی ہیجان کا شکار ہو چکی ہے۔ اندرونی خلفشار اورباہمی کشمکش پارٹی کوجلد ہی اپنی گرفت میں لینے کو ہے ۔PTI کی اندرونی لڑائی ن لیگ کودفاعی پوزیشن سے نکل کر کھل کھیلنے کا موقع دے گی۔ یہی ہوا بجائے کوئی موثر حل تلاش کیا جاتا انٹرا پارٹی الیکشن کے غیرحکیمانہ عمل نے اندرونی خلفشارکو مزید ہوا دی ۔ کروڑوں روپے اور سینکڑوں دن پارٹی کے کارکنوں نے ایک دوسرے کی بیخ کنی میں لگا دئیے ۔سال2012 کو جہاں پارٹی نے ن لیگ کے خلاف مورچہ زن ہونا تھا ایک دوسرے کے دست و گریباں پائے گئے۔اُحد کے تیر اندازتو مورچے چھوڑ کرپارٹی عہدوں کے پیچھے جبکہ ن لیگ بقائمی ہوش و حواس تحریک انصاف کے پیچھے ۔ ” اللہ دے اورن لیگ کیوں نہ لے “ ؟ 2012 وضاحت کا سال ٹھہرا PTI اپنے اثاثوں کی پڑتال کرواتی رہی اپنی دیانتداری کی وضاحتیں دیتی رہی جبکہ ن لیگ کمالِ ہوشیاری سے اپنا سکہ منواتی رہی ۔خان صاحب کو درجنوں دفعہ عرض کیا کہ سیاست ذہنی استبداد کی نہیں سیاسی استطاعت کی مرہونِ منت ہے۔استطاعت چاہیے تھی استبداد نے چولیں ہلا دیں۔ ذہنی پرواز ساتویں آسمان تک پہنچتی تومقدرخودبخود سکندر ٹھہرتا۔رہی سہی کسر پارلیمانی بورڈ نے پوری کر دی۔ درجنوں مثالوں میں سے صرف ایک پیش کرتا ہوں۔ چیئرمین کو NA-126 کی بجائے NA-122 سے فقط ذاتی غرض اور کھوٹی نیت کی بنا لڑوایا گیا۔ علیم خان جنہوں نے جلالی حالت میں ٹکٹوں کی تقسیم پر تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا تو لاہور کے لوگوں کو ایک گونہ سکون ملا بدقسمتی کہ اگلے دن اپنی شرائط پر پھر اگلی صفوں میں۔ اپنے مالی معاملات کی وجہ سے فوری الیکشن لڑنے کاخود تو متحمل تھانہیں خودغرضی اور بدنیتی کی انتہا کہ مکو چیئرمین کا ٹھپ دیا۔ سونامی کی لہر پر ایک ”بے نامے“ شخص کوچیئرمین صاحب کے نیچے پنجاب اسمبلی بھیجنا سنگدلی ہی تو تھا۔جہاں ایک طرف مضبوط ونگ میاں اسلم اقبال تقویت کا باعث بنا اوراپنی نشست جیت گیا وہاں صدیقی نامی شخص ہزیمت ثابت ہوا اور چیئر مین کوبھی لے ڈوبا۔ یقینا صدیقی کو ٹکٹ مرکزی پارلیمانی بورڈ نے ہی دیا ہو گا۔ تحریکِ انصاف جائے بھاڑ میں۔ مزاجِ یار کواگرلگا کھائے تو رشید بھٹی کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال باہر پھینکناتو ممکن لیکن اس سے زیادہ بری شہرت والے بندے سے جان چھڑانانا ممکن۔ استبدادی ذہنیت کی نہیں تدبر اور تدبیر کی فوری ضرورت ہے ۔مضبوط سیاسی حکمت ِعملی میڈیا کو بھی زیر اثر لائے گی اورPTI کو اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچائے گی ۔ کارپوریٹ منیجر اقتدار کے بعد ہی موثر ثابت ہوں گے ۔ تحریک انصاف کا فوری مسئلہ کہ جو لوگ اسمبلیوں میں پہنچ گئے ہیں ان کی وفاداری اور اخلاص پر پہرہ بیٹھانا ہے وگرنہ اگر میاں برادران نے ان کو ساتھ ملانے میں ذرا دلچسپی لی تومخدوم جاوید ہاشمی اور شاید چند سرپھروں کے علاوہ سارے مسلم لیگ ن کی منڈیروں پر پھڑپھڑاتے پائے جائیں گے۔غلطیاں حصے سے زیادہ سرزد ہو چکیں اب غلطیوں کا کارخانہ بند کرنا ہو گا۔ اگر دوبارہ چال بے ڈھنگی رہی تو ایسے مٹو گے کہ داستان تک نہ ملے گی داستانوں میں۔
یقین کامل تھا کہ ن لیگ خیبر پختون خوا میں تحریک ِ انصاف کی حکومت بنانے کی کاوشوں میں روڑے نہیں اٹکائے گی ۔ اس کی وجہ کوئی اصول ، اخلاص و اخلاق نہ تھا بلکہ یہ زعم کہ تحریک انصاف کامیاب حکومت نہیں بنا پائے گی اور رسوا ہو جائے گی۔ ن لیگ شاید یہ بھول چکی ہے کہ وطن عزیز جس حالت کو پہنچا ہے اس کی وجہ کرپشن ، بد انتظامی اور خودغرضی پر مبنی ترجیحات ہیں۔ ہوا کاایک تازہ جھونکا کہ بالآخرجماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے ہاتھ میں ہاتھ دے دئیے اللہ اس میں برکت ڈالے (آمین)۔ دونوں جماعتیں کم ازکم کرپشن سے پاک حکومت ضرور بنا لیں گی۔ تھوڑی محنت سے گڈ گورننس کا خواب بھی پورا ہوسکتا ہے۔ فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کروا دئیے جائیں تونون لیگ کے انجام کا آغاز ہو سکتا ہے میں چونکہ تحریک ِ انصاف کی ”دائی“ رہ چکا ہوں اور جمعیت کی نرسری سے سیاست کے ابتدائی سبق سیکھے ہیں۔ میرا اندیشہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کو عرصے تک چلنے کے لیے جس مقدار کے خلوص، نیت، اخلاص کی ضرورت ہے اس میں کچھ کمی رہے گی۔ وارننگ صرف اتنی ہے کہ دونوں جماعتوں کے لیے یہ آخری موقع ہے ۔ اگرفوری طور پر امیر جماعت، چیئرمین تحریک ِ انصاف ،مخدوم جاوید ہاشمی اور لیاقت بلوچ پر مبنی ایک سیاسی کمیٹی بنا کر مہینے میں دو دفعہ میٹنگز کا پابند نہ کیا تو چھوٹے مسئلے بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔
اتحاد کی معرکہ آراء کارکردگی کسی معرکے سے کم نہیں ہو گی۔ ترکی میں پچھلے 10سال سے طیب اردگان کروفر سے حکمرانی محض اس لیے کر پایا ہے کہ کہ 20 سال پہلے جب سٹی حکومت ملی تو عوام کوگورننس اور دیانت سے خیرہ کر دیا۔ کیا آج جماعت اسلامی اورتحریک انصاف ترکی کی AKP پارٹی کی تاریخ پاکستان میں دھراسکتیں ہیں؟ اخلاص اور اچھی نیت کا دامن نہ چھوڑا ، باہمی اعتماد برقرار رکھا۔ تو یہ اتحاد ”نیاپاکستان “ اور” اسلامی پاکستان“ کی بنیاد کی پہلی اینٹ ہی ثابت ہوگا(انشاء اللہ)۔
تازہ ترین