• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں ہر سال کی طرح اس سال بھی پوری دنیا میں ”ورلڈ وش ڈے“ اور ”تھیلیسیمیا ڈے“ منایا گیا جسے منانے کا مقصد لوگوں میں ان کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ”ورلڈ وش ڈے“ بڑے جوش و خروش سے منایا گیا اور اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور دنیا بھر میں ہزاروں لاعلاج بچوں کی خواہشات کی تکمیل کی گئیں۔ اس دن کی مناسبت سے میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان نے ساحل سمندر پر ایک واک کا اہتمام کیا۔ ”واک فار کاز“ نامی اس واک میں سیکڑوں کی تعداد میں میک اے وش پاکستان کے بچوں، ان کے والدین، رضاکار، اسکولوں کے بچوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ واک کے اختتام پر ”ورلڈ وش ڈے“ کے سیکڑوں غبارے فضا میں بلند کئے گئے اور بیمار بچوں نے ساحل سمندر پر اچھا وقت گزار اور اونٹوں اور گھوڑوں کی سواری کی۔
”ورلڈ وش ڈے“ (World Wish Day) کے حوالے سے میں نے گورنر سندھ سے بچوں کی ایک تقریب میں شرکت کی درخواست کی لیکن گورنر صاحب کی خواہش تھی کہ یہ تقریب گورنر ہاؤس میں منعقد کی جائے اور اس طرح گورنر ہاؤس کراچی میں میک اے وش پاکستان کے 14 لاعلاج بچوں کی خواہشات کی تکمیل کیلئے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے شرکت کی اور بیمار بچوں کو ان کی خواہشات کے مطابق تحائف دیئے۔ اس موقع پر کچھ بیمار بچوں کی منفرد خواہشات کی تکمیل بھی کی گئی جس میں باربی ڈول اور پری بننا، اپنی پسندیدہ شخصیات حنا دلپذیر (مومو)، زیبا بختیار اور معین خان سے ملاقات کرنا جیسی خواہشات شامل تھیں۔ تقریب میں شریک کینسر کے مرض میں مبتلا 13 سالہ بچی اردا لئیق کی ایئر ہوسٹس بننے کی خواہش کو پی آئی اے کے ایم ڈی کیپٹن جنید یونس نے ایئر ہوسٹس کے بیجز لگا کر پورا کیا۔ اس موقع پر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے بیمار بچوں کیلئے میک اے وش پاکستان کی عظیم خدمات کو سراہا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے میک اے وش کے بیمار بچوں کو گورنر ہاؤس کا خصوصی مہمان قرار دیا اور کہا کہ ان بچوں کیلئے گورنر ہاؤس کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے اس عظیم مشن میں گورنر ہاؤس کو میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان کا پارٹنر قرار دیا۔ فاؤنڈیشن کے بانی صدر کی حیثیت سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے میک اے وش پاکستان کے بچوں کیلئے گورنر ہاؤس میں تقریب کا انعقاد کرنے پر گورنر سندھ کے تعاون کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ گورنر ہاؤس میں منعقدہ آج کی یہ تقریب اس بات کا مظہر ہے کہ گورنر ہاؤس کے دروازے صرف سیاسی یا حکومتی شخصیات کیلئے نہیں بلکہ غریبوں اور بیماروں کیلئے بھی کھلے ہیں اور میرے لئے گورنر ہاؤس اور میک اے وش پاکستان کا پارٹنر شپ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ میں نے گورنر سندھ کی توجہ ایک سنگین مسئلے کی طرف بھی مبذول کرائی اور انہیں بتایا کہ میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان کے بیمار بچوں کی ایک بڑی تعداد تھیلیسیمیا میجر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہے، یہ ایک موروثی بیماری ہے جو والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد میں منتقل ہوتی ہے اور اس بیماری کے سبب مریض کے جسم میں خون کم بنتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 ہزار بچے اس مہلک بیماری کو لے کر پیدا ہو رہے ہیں اور ملک بھر میں متاثرہ بچوں کی تعداد ایک لاکھ بتائی جاتی ہے جبکہ تقریباً ایک کروڑ افراد میں اس مرض کی جین موجود ہے۔ میں نے گورنر صاحب سے درخواست کی کہ وہ صوبے میں شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دیئے جانے کے قانون پر پیشرفت کریں تاکہ اس مہلک مرض کا سدباب ہو سکے۔ گورنر صاحب نے تقریب میں موجود تمام افراد کو بتایا کہ ”تھیلیسیمیا ڈے“ کے موقع پر وہ اس حوالے سے بہت جلد خوشخبری سنائیں گے۔ گورنر ہاؤس میں منعقدہ ورلڈ وش ڈے کی اس تقریب میں میک اے وش کے ٹرسٹی جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی، ڈاکٹر اختیار بیگ، بیگم سلمیٰ احمد، سرجن فیض کے علاوہ صوبائی وزیر ڈاکٹر جنید علی شاہ، ایم ڈی پی آئی اے کیپٹن جنید یونس، سابق ٹیسٹ کرکٹر معین خان، سلیم یوسف، اداکارہ زیبا بختیار، حنا دلپذیر، جرمن قونصل جنرل کی اہلیہ لجبا کلینر، ایک بڑے ہوٹل کے جی ایم انتونی جوگناٹ، میک اے وش پاکستان کے بچے، ان کے والدین اور رضاکار بڑی تعداد میں موجود تھے۔ تقریب کے اختتام پر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے پی آئی اے اورایک بڑے ہوٹل کو ان کی CSR خدمات پر شیلڈ عطا کی جسے پی آئی اے کے ایم ڈی کیپٹن جنید یونس اور ایک بڑے ہوٹل کے جی ایم انتونی جوگناٹ نے وصول کی۔ اس کے علاوہ گورنر سندھ نے کرکٹر معین خان، سلیم یوسف اور حنا دلپذیر (مومو) کو میک اے وش پاکستان کیلئے خدمات دینے پر سرٹیفکیٹ عطا کئے۔
8 مئی کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ”تھیلیسیمیا ڈے“ بھی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا اوراس دن کی مناسبت سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ اسی طرح کی ایک تقریب کاشف اقبال تھیلیسیمیا کیئر سینٹر کے زیر اہتمام فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) میں منعقد کی گئی جس میں فیڈریشن کے قائم مقام صدر شاہین الیاس سروانہ، نائب صدر گلزار فیروز، بزنس کمیونٹی کے لیڈر اور کاشف اقبال تھیلیسیمیا کیئر سینٹر کے پیٹرن انچیف ایس ایم منیر، سینیٹر حسیب خان، روح رواں بلال ملا، کاشف ملا اور چیئرمین محمد اقبال نے شرکت کی۔ اس پُروقار تقریب میں میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان کے بانی صدر کی حیثیت سے میں بھی مدعو تھا۔ بزنس مینوں کے تعاون سے چلنے والا KITCC ہر سال ہزاروں بچوں کا بلامعاوضہ علاج کروارہا ہے جو ایک خدمت خلق ہے۔ یہ تقریب اس لحاظ سے بھی منفرد تھی کہ اس تقریب میں تھیلیسیمیا میجر کے مرض میں مبتلا ایک بچے زید راؤ کی منفرد خواہش کی تکمیل کی گئی جس نے میک اے وش پاکستان سے ایک دن کیلئے FPCCI کا صدر بننے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس زید پُراعتماد انداز میں فیڈریشن کے صدر کے کمرے میں داخل ہوا، اُن کی کرسی پر جاکر بیٹھا اور فیڈریشن کے اسٹاف کو مختلف ہدایات دیں۔ بعد ازاں زید نے ”ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے“ کے حوالے سے فیڈریشن ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور ایک ماہر مقرر کی طرح اپنی تقریر میں فیڈریشن آف پاکستان اور میک اے وش پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی بیماری کے بارے میں حاضرین کو آگاہ کیا۔ اس موقع پر فیڈریشن کا ہال بزنس مینوں، تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں اور ان کے والدین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں نے اپنی تقریر میں شرکاء کو بتایا کہ دنیا بھر کے 50 ممالک میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی بچے نے فیڈریشن کا صدر بننے کی خواہش کا اظہار کیا ہو۔ زید کی خواہش اس بات کا بھی مظہر ہے کہ وہ بزنس کمیونٹی کے لیڈرز کو ایک ہیرو کے طور پر تصور کرتا ہے۔ میں نے میک اے وش پاکستان کے ساتھ تعاون اور بچے کی خواہشات کی تکمیل کرنے پر فیڈریشن کا بھی شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر سینیٹر حسیب خان نے تقریب کے شرکاء کو یہ خوشخبری سنائی کہ وہ ابھی گورنر ہاؤس سے تشریف لا رہے ہیں اور تھیلیسیمیا کے عالمی دن کے موقع پر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے ”تھیلیسیمیا پریونٹیشن آرڈیننس“ پر دستخط کر دیئے ہیں جس کا فوری اطلاق ہوگا اور اس کی رو سے شادی سے قبل لڑکا اور لڑکی کو خون کے ٹیسٹ لازمی کرانے ہوں گے جبکہ نکاح خواں بھی دونوں کی ٹیسٹ رپورٹ نکاح نامہ میں منسلک کرنے کے بعد نکاح پڑھانے کے پابند ہوں گے اور خلاف ورزی پر نکاح خواں کیلئے جرمانہ اور سزا بھی رکھی گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ سندھ کی طرح دوسرے صوبے بھی اس قانون کی تقلید کریں گے۔ اگر اس بل پر عملدرآمد ہوتا ہے تو وہ 5 ہزار بچے جو ہر سال اس مرض کو لے کر پیدا ہوتے ہیں ان کی روک تھام ہوسکے گی۔
پاکستان میں مغربی رسومات جن میں ویلنٹائن ڈے بھی شامل ہیں کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور نوجوان ان رسومات کی اندھا دھند تقلید کرتے ہوئے تحفے تحائف کی خریداری میں کروڑوں روپے خرچ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اگر ان مغربی رسومات پر بے تحاشا رقم خرچ کرنے کے بجائے ہم سب مل کر اپنی کمیونٹی کے کسی غریب گھرانے کی مدد یا کسی لاعلاج بچے کی خواہش کی تکمیل کا بیڑا اٹھالیں تو پاکستان میں کوئی بیمار بچہ اپنا خواب لئے اس دنیا سے رخصت نہ ہوگا۔
تازہ ترین