• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے

ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا

یہ ہندوستان کے اُس شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کا کہنا ہے جنہوں نے میانمار کے شہر رنگون( ینگون) کے ایک خستہ حال مکان میں جب 7نومبر 1862کو آخری سانس لی تو اُن کے خاندان کے گنے چنے افراد ہی اُن کے سرہانے موجود تھے۔ اِس طرح ہندوستان میں اُس مغل سلطنت کا اختتام ہوا جو ظہیر الدین بابر نے افغان حکمران سلطان ابراہیم لودھی کو افغانوں ہی کی مدد سے شکست دے کر 1526میں قائم کی تھی۔ اُن دنوں اسی ہندوستان کے ایک حصے پر نمودار ہونے والے پاکستان میں بھی تخت ’’طائوس‘‘ کیلئے اقتدار کے غلام گردشوں اور اُس سے محروم لوگوں میں رسہ کشی کا بازار گرم ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے بہت پہلے دنیا اُس جمہوریت سے روشناس ہو چکی تھی جس کے ذریعے حقِ حاکمیت شہنشاہوں، بادشاہوں اور آمروں سے عوام کو منتقل ہوا تھا۔ فرنگی کے دور میں بھی موجودہ پاکستان کے لوگ مساجدمیں جانے کے لئے آزاد تھے، لیکن یہ حقِ حکمرانی ہی تھا جس کیلئے لاکھوں لوگ تہہ خاک ہوئے، ہزاروں برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے بےیار و مددگار پڑے رہے، جائیدادیں نیلام ہوئیں، آزادی گھر بیٹھے ملنے والی نعمت نہیں، اِس کیلئے قربانی کے ہر مرحلے میں خود کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ پاک و ہند کے لوگوں نے خود کوثابت کیا تو پھر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ وائے افسوس کہ یہ سورج بھارت میں تو جمہوریت کی صورت میں آج بھی نمودار ہے لیکن ہماری طرف آتے ہوئے اُسے گرہن لگ گیا، ابتدا ہی میں انگریز کی تربیت یافتہ سول و فوجی بیوروکریسی نے انگریز کے پروردہ سر، نواب، خان بہادروں اور جاگیرداروں کے ساتھ مل کر نوزائیدہ پاکستان پر قبضہ کر لیا۔ انگریز میں تو پھر بھی اتنا انصاف تھا کہ وہ اگر دودھ، دہی، گھی خود کھاتا تو لسی تو اپنی رعایا کیلئے چھوڑ دیتا تھا، نئی مملکت میں آنے والوں نے ایسی روایت قائم کی کہ اب تک ناترس حکمران طبقات اِس ملک کے اصل عوام کو لسی بھی دینے کیلئے تیار نہیں۔ یہاں آمروں نے استحصالی طبقات اور اُن طبقات نے موقع پرست سیاستدان بن کر آمروں کا ساتھ دیا، یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک و ملت کی سمت واضح نہیں ہو سکی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ یہ استحصالی عناصر سیاست کیلئے ناگزیر بن چکے ہیں۔ نقشہ آپ کے سامنے ہے کہ کس طرح شوگر و آٹا سمیت مہنگائی مافیا نے کھربوں روپے کمائے لیکن سزا تو دور کی بات کہ وہ اب بھی معزر و محترم ہیں، جہاں حکومت مدہوش وہاں اپوزیشن خاموش، یوں یہ عناصر اسی طرح جب چاہیں غریبوں کی جیبوں میں موجود پونجی بھی لوٹ لیتے ہیں۔ اب پی ڈی ایم کے نام سےجو تحریک بپا ہے عوام قبل ازیں چلانے والی ہر تحریک کی طرح اُس سے بھی اُمیدیں وابستہ کئے ہیں، برسوں کے مطلق العنان اورموقع پرست سیاست سے عوام بیزار ہیں، اقتدار پرستوں کی خواب آور دوا استعمال کرتے کرتے عوام اب اس کا اثر قبول کرنے پر آمادہ نہیں، وہ جانتے ہیں کہ ملک وملت کی ترقی کا واحد راستہ ووٹ کی تقدیس ہی ہے۔ شاید اب معاملہ ایک طرف ہونےکو ہے۔اس سلسلے میں ہر دوجانب تیاریاں عروج پر ہیں، جہاں پی ڈی ایم اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے کشتیاں جلانے کا ارادہ رکھتی ہے، وہاں حکومت بھی عوامی مسائل کے حل کو پسِ پشت ڈال کر اس تحریک کوقصہ پارینہ بنانے کیلئے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لا سکتی ہے۔ بعض حلقے امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ اِس سلسلے میں پی ڈی ایم رہنمائوں بالخصوص مریم نواز صاحبہ کی گرفتار بھی ہو سکتی ہے۔ یہ حلقے اِس سلسلے میں رکن قومی اسمبلی جناب علی وزیر کی گرفتاری کی مثال دیتے ہیں کہ ان کی گرفتاری جس تقریر کے سبب لائی گئی ہے ایسی تقاریر کے الزامات پی ڈی ایم رہنمائوں پر بھی لگتے رہے ہیں۔ حکومت نے جیسے جناب علی وزیر کی گرفتاری کیلئے سندھ کی سرزمین کا چنائو کیا، اگر محترمہ بےنظیر شہید کی برسی کے اجتماع میں محترمہ مریم نواز شرکت کرتی ہیں اور اُن سے صبر کا دامن چھوٹ جاتاہے توایسی صورت میں وہ بھی مواخذے میں آسکتی ہیں۔ لاہور جلسے کے بعد ن لیگ کی بعض تنظیمی غلطیاں آشکار ہو چکی ہیں، موسم اورتنظیمی نقائص کے سبب ہو سکتا ہے کہ حکومت محسوس کرے کہ زیادہ ردِعمل متوقع نہیں۔ سندھ میں گرفتاری کی صورت میں حکومت ملبہ سندھ حکومت پر گرائے گی اور سندھ حکومت بےبسی کا رونا روئے گی، اِس طرح کیپٹن صفدر کی گرفتاری جیسی دور ائے سامنے ہوں گی، یہی وفاق کی منشا بھی ہے کہ واضح صورتحال عوام کے سامنے نہ آسکے۔ ماضی میں وزیراعظم عمران خان جناب علی وزیر اور مریم صاحبہ سے بھی سخت لہجہ استعمال کرتے رہے ہیں لیکن ماضی کے حکمرانوں نے حکمت سے کام لیا، دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت کیا طرز عمل اپناتی ہے۔

تازہ ترین