• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر دہشت گردی سے لڑتا بھڑتا اور اپنے ہی حکمرانوں کے پیدا کردہ مصائب میں دھنساپاکستان سرخرو ہو گیا ۔ہر دم وطن کے لیے فکر مند بیرون ملک آباد اور عازمین سفر پاکستانیوں کے لیے بھی خوش خبری ہے کہ ہمارے گرین پاسپورٹ کی مکمل نہیں تو نصف سے بھی زیادہ عزت لوٹ آئی ۔ انشاء اللہ ، وہ دن دور نہیں باہمت ، باشعور اور صبر و تحمل کے پیکر پاکستانی دنیا میں بڑے بڑے امیر ایشیائی اور مسلم ممالک کے شہریوں سے بھی زیادہ محترم و معتبر بن جائیں گے ۔ یہ ثمر ہو گا الیکشن ۔ 13کا ، جس میں عوام نے سب سے بڑے صوبے کی حکمراں جماعت کو دوسرے تینوں صوبوں کے مقابل بہتر کا ر کردگی پر ، ایک بار پھر پانچ سال کی ملکی حکمرانی کے لیے چن لیا ۔ کرپشن ، اقربا ء پروری ، دوہرے قانون کی حکمرانی، نااہلیت اور موروثی سیاست کے غلبے کو للکارنے اور قوم کو نئے پاکستان کا خواب دکھانے والے عمران خان کی تحریک انصاف کو ہمارے بچوں نے ملک کی انتہائی اہم پارلیمانی قوت میں تبدیل کر دیا ۔عوام نے پاکستان کو تاریکیوں میں غرق کر کے کرپشن کا بازار گرم کر نے اور عوام کو بے روزگاری اور غربت کے کنویں میں دھکیلنے والی حکمراں جماعت کو سندھ کی سیاسی طاقت میں محدود کر دیا ۔ اس کی سر گرم اتحادی اے این پی اپنی نااہلیت اور کرپشن کے باعث مکمل شکست سے دوچار ہوئی۔ ادھر مجبوری کی اتحادی ایم کیو ایم کی انتخابی کامیابی کئی حلقوں میں متنازع و مشکو ک ہو گئی ۔ کراچی میں لوگوں نے بھی (اپنے الزامات کے مطابق ) مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کی ہمت کر ہی ڈالی ۔ سیاسی بالغوں اور عاقلوں کی جماعت ایم کیو ایم سے گزارش ہے کہ وہ مشتعل نہ ہو ، رخ تبدیل کر تی چلتی ہوا کو دیکھے ۔ عوامی عدالت سے تازہ تازہ سزا یافتہ پی پی سے اپنے اتحاد کو ناگزیر بنا لینے کا فیصلہ نظر ثانی کا متقاضی ہے ۔ نئی صورتحال کے مطابق خود کو مینج کر نا ہی ہو گا ۔ ایم کیو ایم کا اپنا پوٹینشل ہے ، وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی خامیاں دور کرنے کے لیے بھی جرأت مندانہ فیصلے کر ے۔ خواہ ایک دو نشستوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے ۔ جان کی امان پر الطاف بھائی سے عرض ہے کہ انہوں نے پارٹی کوکراچی کی پارلیمانی قوت بنانے میں بڑی جدو جہد کی ۔ اب اس کے زرو پر وہ غصہ نہ کیا کریں بلکہ اسے سنبھالے رکھنے اور اس کا معیار بلند کر نے کے لیے اپنی پارٹی کی راہنمائی کرتے جائیں ۔ متنازع انتخابی نتائج پر احتجاج لاہور میں بھی جاری ہے ۔ تاریخ ساز انتخاب کا اعتبار قائم رکھنے اوران انتخابات کے فاتح اول و کراچی کی سب سے بڑی پارلیمانی قوت کے سیاسی مفادات کا تقاضہ تو یہی ہے کہ جمہوری عمل پر عوام کا اعتبار ڈگمگانے نہ پائے کہ یہ جمہوری عمل کا حساس ترین پہلو ہے ۔ سو ، جہاں جہاں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف زور دار آواز اٹھی ہے وہاں ہر پارٹی کی شکایات کی روشنی میں ہونے والی انتخابی عذر داریوں کا فیصلہ جلد سے جلد کرنا اشد ضرروی ہے ، خواہ اس کے لیے متنازع بن جانے والے انتخابی حلقوں میں از سر نو انتخاب ہی کیوں نہ کرانا پڑے ۔ یہ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری ، وقار اور عوام میں اعتبار کا سوال ہے ۔
بعد از انتخاب تبدیلی اور سٹیٹس کوء کی ایک ایک علامت خوب ابھر کر سامنے آئی ۔ ایک فراخ دلی سے تحسین کی مستحق ہے تو دوسری ہر جمہوریت پسندپر گراں گزری ۔ غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جناب نواز شریف کے اس عزم کے اظہار سے سٹیٹس کو ء کی چھتری تلے ہونے والاوہ گٹھ جوڑ دم توڑ گیا جس کا آغاز خیبر پختونخوا کے انتخابی نتائج مکمل ہو تے ہی مولانا فضل الرحمن نے کیا تھا ۔ انہوں نے بڑی پھرتی سے پہلے تو یہ واضح کیا کہ ہم ن لیگ اور آفتاب شیر پاؤ کے ساتھ مل کر صوبے میں مخلوط حکومت بنائیں گے ، پھر اس کے لیے عملاً سر گرم بھی ہوگئے ۔ مقصد یہ تھا کہ صوبے کے عوام کے اصل مینڈیٹ کو بھاڑ میں جھونکتے ہوئے صوبے کی سب سے بڑی پارلیمانی قوت بن جانے والی تحریک انصاف کو واضح بنتی حکومت سے محروم کر دیا جائے ۔ میاں نواز شریف کے متذکرہ بیان سے (صوبے میں ہی سہی ) مولانا میں اقتدار کی تڑپ ، مایوسی میں تبدیل ہو گئی ،لیکن ان کی تحسین بھی کرنا پڑے گی کہ مولانا نے کمال حوصلے سے خیبر پختونخوا کے مینڈیٹ کو تلپٹ کر کے اقتدار کے حصول کی مچلتی تمنا کو جلد سے جلد آشکار کر نے میں کسی منافقت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ خیبرپختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام کے غالب حصے کے ساتھ سابقہ ایم ایم اے کی حکومت ، گورننس کے حوالے سے صوبے کی بد ترین حکومت تھی ، جس میں گڈگورننس کی کچھ جھلک جماعت اسلامی کے خفیف شیئر کے ساتھ آتی رہی ، تبھی تو جناب سراج الحق صوبے میں آنے والے سونامی کی زد میں آنے سے بچ گئے ۔ یہاں شکست خوردہ اے این پی کی تعریف نہ کرنا نا انصافی ہو گی ۔ اس نے اپنی شکست کو بڑے حوصلے سے برداشت کیا اور جیتنے والوں کو مبارکباد دینے میں دیر نہیں لگائی ۔ اس طرح اس نے انتخاب ہارتے ہی جمہوریت پسندوں کے دل میں اپنی جگہ پھر بنائی ، پھر یہ کہ فوراً ہی خود احتسابی کی طرف بھی آگئی ، جیسا کہ محترمہ بیگم نسیم ولی نے پارٹی کے کرتے دھرتوں کی کلا س لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اب نقشہ یہ بنا کہ مسلم لیگ ن روایتی بیساکھیوں کا سہارا لیے بغیر ، حکومت سازی کی پوزیشن میں آ گئی ہے ۔ یہ صورت اسے پورے اعتماد سے ایک معیاری ، اہل اور عوام دوست حکومت بنانے کا سنہری موقع فراہم کر رہی ہے ۔ خدارا ، اس کی قیادت اقربا پروری کے دائرے سے باہر نکل آئے جو ، پچھلے ادوار میں سٹیٹس کو ء کا کھیل کھیلتے ہو ئے اس کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔ جو جس کا م کا جتنا اہل ہے ، اس سے وہ اتنا ہی کام لیں ، جو اہل نہیں ، پس اس کی وفاداری اور تائیدو حمایت پر مطمئن رہیں نہ کہ اس کے سر پرعوامی اور ملکی خدمات کی حساس ذمہ داریوں کی گٹھری رکھ دیں ۔ یقین ہے کہ میاں صاحب قومی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کریں گے ، لیکن جان کی امان پا کر عرض ہے کہ معیشت کو حقیقی معنوں میں ڈاکیو مینٹیڈ اکانومی بنانے کا حوصلہ بھی کر لیں ، خصوصاً ٹیکس وصولی کے حوالے سے ۔ بلا شبہ معیشت کو سنبھالا دینے کا چیلنج بہت بڑا اور پیچیدہ ہے ۔ اس کی بحالی اور اٹھان کے لیے روایتی اقدامات اٹھانے کی بجائے اقتصادیات کی جدید سائنس کو مذہبی فریضے کی ادائیگی کے جذبے اورانداز میں اختیار کر نا پڑے گا ۔کر لیا تو وہ بہت کچھ نکل آئے گا جو مطلوب ہے ۔ ہر دو میاں صاحبان کو مبار ک حاضر ہے ، قبول ہو لیکن ان کی کامیابی کی خوشی میں مفت مشورے کا ایک تحفہ بھی پیش خدمت۔ اپنے گرد تنے ”واہ واہ ٹولے“کی خطرناک توصیف و تحسین سے بچیں۔ اپنی پالیسیوں، حکومتی اقدامات، اصلاح طلب سیاسی سوچ اور اپروچ پر ہونے والی گڑوی کسیلی تنقید سے اپنی بیزاری کو کم بلکہ ختم کر نے کا حوصلہ پیدا کریں ۔
جہاں تک تحریک انصاف کے بڑی پارلیمانی قوت بننے کا تعلق ہے ، الیکشن - 13 کا یہ انقلاب آفریں نتیجہ ، میاں نواز شریف کے تیسری بار ( بذریعہ شہباز شریف گڈگورننس)اقتدار میں آنے سے اہم اور بڑا نتیجہ ہے ، جو ملکی سیاست اورجمہوری عمل کوتوانا کرنے اور سٹیٹس کو ء کو مکمل ختم کر نے لیے دور رس نتائج کا سبب بنے گا ۔ عمران خان خیبر پختونخوا میں اپنے ویژن اورتبدیلی کی تڑپ کو عمل میں ڈھال کر دکھا سکتے ہیں ۔ اس کار خیر میں امیر سمندر پارپاکستانیوں کی بڑی تعداد انہیں تعلیم و صحت عامہ، ماحولیات خصوصاً خواتین اور بچوں کی ترقی و بہبود کے سپانسرڈ ترقیاتی پراجیکٹ کے ذریعے نتیجہ خیز مدد فراہم کر سکتی ہے ۔ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لیے رحمت بن جانے والا گڈ گورننس کے مقابلے کا ماحول بھی پیدا کر سکتے ہیں جو سند ھ اور بلوچستان کے لیے بھی سبق آموز اور مطلوبہ دباؤ کا باعث بنے گا ۔
آخیر میں پیپلز پارٹی کے جیالے دوستوں سے ایک گزارش۔ حوصلہ رکھیں اور دل نہ چھوڑیں ۔ خدارا کسی مخصوص خاندان کی سیاسی پوجا کا سلسلہ ختم کرو،سندھ کا رڈ اور ماتمی سیاست چھوڑ دو ۔ پارٹی کو اپنی ریکارڈ کرپشن اور بدترین طرز حکومت سے سندھ کی دیہی سیاسی قوت تک محدود کر نے والے اپنے کرپٹ رہنماؤں کااحتساب کرو۔ بلاول کم سن ہے اور بھٹو بھی نہیں ۔وہ تو زرداری خاندان کا سپوت ہے ، سو، نیا سیاسی خاندان گھڑنے کی بجائے ، پارٹی کارکنوں میں سے کوئی نظریاتی، جمہوری مزاج اور صحیح معنوں میں جدیدت اور ترقی کا علم بردار لیڈرنکالو۔تمہاری پارٹی میں ایسے جیالے ہیں ،لیکن اگلی صفوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے پارٹی کونے کھدروں میں جھانکنا پڑے گا ۔ وماعلینا الاالبلاغ
تازہ ترین