• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گوکہ انتخابی نتائج کے بارے میں بعض امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعتراضات اور شکوک و شبہات کا اظہار جاری ہے اور بیرون ملک مقیم اور آباد45لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں کو بھی شکایت ہے کہ الیکشن کمیشن نے جان بوجھ کر انہیں ووٹ کا حق استعمال کرنے سے محروم کرکے کھلی زیادتی کی۔ چند دیگر معاملات کے حوالے سے بھی قابل احترام فخرو بھائی کی قیادت میں شفافیت، غیر جانبداری اور اصولوں کے تحت انتخابات منعقد کرانے کے دعووں کے ساتھ کام کرنے والا الیکشن کمیشن اپنے عمل اور مقصد کے حصول میں ناکام نظر آتا ہے لہٰذا انتخابات کے نتائج کے مکمل اور سرکاری اعلان سے قبل ہی صورتحال یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی چند اہم پارٹیاں تحریک انصاف، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ(ن) نتائج اور شفافیت کے حوالے سے آپس میں سیاسی محاذ آرائی اور الزام تراشی میں مصروف ہوگئی ہیں۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بھی غیر مطمئن اور شاکی ہیں متعدد تصدیق طلب دستاویزی ثبوت کے دعووں کے ساتھ الیکشن کمیشن کی نااہلی کا ڈھول پیٹ رہی ہیں۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف بھائی کی شعلہ انگیز تقریر، تحریک انصاف کے کراچی ، لاہور اور دیگر شہروں میں احتجاجی دھرنے وغیرہ الیکشن کمیشن کی نااہلی کے الزام کے ساتھ ملک میں ایک ایسی فضا پیدا کرنے کا خطرہ ہے جو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کرائے جانے والے انتخابات میں چند نشستوں پر ایسی ہی دھاندلی کے الزامات سے لاہور میں شروع ہوکر پورے ملک اور بھٹو حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے گئے اور نتیجے میں ضیاء الحق کا مارشل لاء اور طویل دور آمریت بشمول ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کی صورت میں نکلا۔ خدا کرے یہ مسئلہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے قائدین ہوشمندی سے حل کرلیں اور اپنی شکایات و اعتراضات کو قواعد وضوابط اور عدالتی طریقہ کار کے ذریعہ حل کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے غربت ، جہالت ، بدامنی اور آمریت کی ایک طویل تاریخ رکھنے والے پاکستان اور اس کے عوام کو انتہائی مخدوش حالات اور سنگین خطرات کے ماحول میں بھی انتخابات کے مشکل مرحلے سے نکالا ہے۔ عوام نے ایک بار پھر انتہائی تدبر اور شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوری عمل کیلئے ووٹ ڈالا ہے الیکشن کمیشن کی تمام تر نااہلی، ووٹنگ میں بے قاعدگی، سیاسی پارٹیوں کے جوشیلے کارکنوں اور متعدد امیدواروں کی بدعنوانیوں اور دھاندلیوں کے الزامات کے باوجود عالمی سطح پر پاکستانی عوام، عمران خان ، نوازشریف، الطاف حسین کی سیاسی قیادت اور ان کی پارٹیوں کے رول کو بھی ستائش اور حیرت سے تسلیم کررہے ہیں حتیٰ کہ تنقید وطنز کا شکار پیپلزپارٹی اور خاموش صدر مملکت آصف زرداری کے رول کو بھی انتخابات کے حوالے سے قابل ستائش نظروں سے دیکھا جارہا ہے ۔ صدر آصف زرداری نے نواز شریف کو فون کر کے اپنی پارٹی کی شکست کو جس طرح تسلیم کیا ہے وہ بھی قابل ستائش ہے۔ فی الوقت عالمی برادری اور حالات ان پاکستانی انتخابات کے ہر جیتنے والے اور ہارنے والے کے بارے میں ایک مثبت تاثر اور رویہ رکھتی ہے ۔ عمران خان نے جس طرح پاکستانی نوجوان نسل سمیت ووٹرز کو متحرک اور منظم کیا ہے پاکستانی سیاستدان اور عالمی مدبر اس سے انتہائی متاثر ہیں اور معترف ہیں کہ عمران خاں نے 60 سال کی عمر میں بھی پاکستانی نسل کے ہر چھوٹے بڑے کو متحرک کرکے اس پاکستانی قوم کی بڑی خدمت کی ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی پرویزمشرف کی قید اور جلاوطنی کے ایام سے گزر کر اب بہت کچھ سیکھا ہے اور پاکستان کے چاروں صوبوں میں اپنی پارٹی کی نمائندگی حاصل کی اور واضح معمولی اکثریت حاصل کی ہے جبکہ پی پی پی نے صوبوں کی زنجیر کے مقام سے انتخابی شکست کھا کر سندھ کی علاقائی پارٹی کے مقام پر آکر بھی انتخابی شکست کو تسلیم کرلیا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف بھائی نے بھی پرویز مشرف اور پی پی پی کے ساتھ سندھ اور مرکز میں اقتدار میں شراکت کے ریکارڈ اور پھر تمام تر دھمکیوں، خطرات اور دہشت گردی کے باوجود الیکشن کے جمہوری عمل میں بھرپور حصہ لیا۔ اے این پی اور پی پی پی نے بھی برسراقتدار ہونے اور اپنی انتہائی قابل تنقید کارکردگی کے تمام انتخابی اثرات کے علاوہ دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے الیکشن اور نتائج کا سامنا کیا جبکہ پاکستانی عوام نے تو اپنے سیاسی شعور اور حب الوطنی کی وہ مثال قائم کی ہے کہ جو ایشیاء اور افریقہ کی کوئی قوم اور کوئی بھی مسلم ریاست ابھی تک پیش نہیں کر سکی۔ جو پاکستانی لیڈر عوام کو اس قابل ستائش مقام تک قیادت کرکے لائے ہیں ان کے پاس صرف دو راستے ہیں یا تو وہ انتخابی دھاندلی اور کامیابیوں کے جھگڑوں میں الجھ کر قوم کے موجودہ جوش و خروش کو مزید بدامنی اور تصادم کی جانب لے جائیں یا پھر مستقبل کی خاطر حالیہ چھوٹے امور اور الیکشن کمیشن کی نااہلی، سیاسی کارکنوں کی بدتمیزیاں اور دھاندلیاں برداشت کرکے قوم کی قیادت کریں اور دہشت گردی، معاشی بدحالی اور مایوسی سے نکال کر موجودہ جوش و خروش کو تعمیر کی سمت میں ڈال دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ نشستوں اور علاقوں میں دھاندلیاں ہوئی ہیں اور الیکشن کمیشن ناکام رہا ہے۔ ان دھاندلیوں والی نشستوں اور واقعات کو الیکشن ٹریبونل نہیں بلکہ ملک کا عدالتی نظام طے کرے۔ تحریک انصاف اور تمام پارٹیاں اپنے دعوے اور ثبوت لے کر عدلیہ کے پاس جائیں الیکشن کمیشن کو نااہلی کا ملزم ٹھہراتے ہوئے یہ ریکارڈ پیش کریں اور فیصلے حاصل کرکے نشستوں کے بارے میں فیصلے کرائیں، وقت ضرور لگے گا مگر تصادم کے بجائے امن سے فیصلہ ہو گا اور پھر یہ ریکارڈ دھاندلیوں کی دستاویز آئندہ کے سفر میں مددگار ہوں گی۔ اگر امریکی صدارت کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کا جیتا ہوا امیدوار اپنے حق میں کئے گئے سوراخ کے ووٹوں کی قربانی دے کر ری پبلکن جارج بش جونیئر کو صرف اس لئے جیتا ہوا امیدوار مان لیتا ہے کہ امریکہ اور اس کی قوم کے وقار کی خاطر قربانی کا تقاضا تھا تو پھر عمران خان، الطاف حسین اور نواز شریف بھی وقتی دھاندلیوں اور زیادتیوں کو مستقبل کی خاطر پُرامن انداز میں حل کر کے قوم کے سامنے صبر اور تدبر کا مظاہرہ کریں۔ امریکہ میں حلقہ بندیوں کیلئے ”جیری مینڈرنگ“ کا اصول انتخابی دھاندلی کے مترادف اصول ہے مگر قومی مفاد کی خاطر ایک طویل عرصہ سے رائج اور تسلیم شدہ چلا آرہا ہے۔ اس وقت عمران خاں پر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ متحرک نوجوان نسل کو مثبت سمت میں لے جاکر مزید منظم کریں۔ ناانصافیوں کا پُرامن حل اور گرجدار، متحرک اور منظم اپوزیشن کا وہ رول ادا کریں جو انہیں اور ان کی تحریک کو نئے پاکستان کا وارث اور امین بنا دے اور نواز شریف اب ایک ایسی حکومت تشکیل دیں جو کرپشن سے پاک، احتساب کیلئے تیار اور دانشمند معاونین پر مشتمل ہو۔ آخر جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا نے ناانصافیوں کا شکار ہو کر زندگی کے 27سال غاصبوں کی جیل میں گزارے اور جب اسے اپنے ملک اور قوم کا سربراہ بننے کا موقع ملا تو اس نے ناانصافیوں کا انتقام لینے کی قوت کے باوجود قوم کی ضرورتوں اور مفاد کی خاطر انتقام یا تصادم کے بجائے اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے برداشت اور مصالحت کی عالمی مثال قائم کرکے قوم کو سرخرو کردیا۔ نواز شریف کو بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی جلدی یوں ہے کہ 14سال قبل امریکی صدر بل کلنٹن کے تعاون سے نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم کو مینار پاکستان لاہور پر بلاکر جس باوقار انداز میں پاک، بھارت بقائے باہمی کے سفر کا آغاز کرنے کی کوشش کی تھی وہ اسے دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستانی سیاستدان داخلی سیاست اور علاقائی اسٹیج پر محاذ آرائیوں سے بچ کر نئے اور بقائے باہمی کے رویّے اپنا کر چلیں۔
تازہ ترین