• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا وقت چل رہا، ایک کے بعد ایک دوست جدا ہو رہا، اب تو قبرستان جائیں، ایسے لگے سارے پیارے تو یہاں، گھر خالی رہ گئے، مجھے یہ تو یاد نہیں کہ ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات کب، کہاں ہوئی، مگر مجھے یہ کبھی نہیں بھولے گا کہ پچھلے دس برسوں میں کوئی ایسی مشکل نہیں جس میں وہ سب سے پہلے نہ پہنچے ہوں، مجھے اچھی طرح یاد، میں ایک گروپ چھوڑ کر دوسرے میں گیا، اگلے ہی دن اُن کا فون آگیا، تم نے وہ گروپ چھوڑ دیا، میں نے کہا، جی، کہنے لگے، کسی چیز کی ضرورت، میں نے کہا، نہیں، بس آپکی دعائیں، میں نے گھر بدلا، اُنہیں نجانے کیسے پتا چل گیا، اُن کا فون آگیا، نیا گھر مبارک ہو، یار بتایا ہی نہیں، میں نے کہا، ڈاکٹر صاحب شکریہ، سوچا تھا مل کر بتاؤں گا، اُنہوں نے کہا، اچھا بتاؤ میں کیا دوں، میں نے کہا، دعائیں، بولے، تم چھوٹے بھائی ہو، جو چاہئے بتاؤ، میں نے کہا، کسی چیز کی ضرورت نہیں، جب ہوگی تو آپ کو بتاؤں گا، ایک بار میری کسی سے لڑائی ہو گئی، پہلا فون اُن کا آیا، کدھر ہو، کیسے لڑائی ہوئی، میں آؤں، میں نے کہا، نہیں ضرورت نہیں، بولے، اُسے سبق سکھائے بنا چھوڑنا نہیں، میں نے کہا، چھوڑیں بات رفع دفع ہو گئی ہے، وہ کہاں ماننے والے تھے، لہٰذا چند منٹوں میں صورتحال یہ ہوئی کہ میں اپنا جھگڑا بھول کر اُن کو سمجھا بجھا، اُن کا غصہ ٹھنڈا کر رہا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کے آئیڈیل صحافی جاوید چوہدری، دونوں کی دوستی بھی بہت تھی، مجھے اکثر کہتے جاوید چوہدری بنو، زندگی انجوائے کرنا، ملک ملک گھومنا، سیٹھوں کی تنخواہوں پر انحصار کرنے کی بجائے صحافت کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنا، میں ہر بار اُنہیں کہتا، جاوید چوہدری ایک ہی ہے، میں نہیں بن سکتا، میرا یہ فضول جواب سن کر بھی وہ ہمت نہ ہارتے، بلکہ ہر دوسرے، تیسرے ہفتے باتوں باتوں میں کہیں نہ کہیں سے بات نکال کر کہہ ہی دیتے، جاوید چوہدری بنو، زندگی ویسے گزارو، ڈاکٹر صاحب کی شہباز شریف سے دوستی تھی، اُن کا خیال تھا کہ شہباز شریف خود کرپٹ نہیں، جو کچھ کیا بچوں نے کیا، میں کہتا، شہباز شریف نے بچوں کو کیوں نہ روکا برے کاموں سے؟ اُن کا جواب ہوتا، بچے جوان ہوں، اپنا کاروبار کر رہے ہوں، والد سیاست کر رہا ہو، آدھے پاکستان جتنے صوبے کا وزیراعلیٰ ہو، کہاں بچوں پر نظر رکھ پاتا ہوگا، میں کہتا، واہ کیا لاجک ہے، بچے ارب پتی ہو گئے، والدین کو پتا ہی نہیں چلا، ویسے اتنے پیسے کہاں سے آئے بچوں کے پاس؟ اُن کا جواب ہوتا، کاروبار کیا ہوگا، میں کہتا، آپ کے بچے کیوں ارب پتی نہیں ہوئے؟ جواب آتا، سب کے بچے ٹیلنٹڈ نہیں ہوتے، ایسی ہی ایک بحث میں جب اُنہوں نے مجھے یہ بتایا کہ شہباز شریف نے کیا کرپشن کرنی، وہ تو ایک آدھ بار مجھ سے ادھار لے چکے، تب میں نے کہا، قبلہ یہ سیاستدان اِس طرح کے ڈرامے کر لیا کرتے ہیں، دوستوں سے ادھار مانگ لینا تاکہ یہ تاثر رہے کہ کتنا ایماندار ہے، وزیراعلیٰ ہے، چاہتا تو اربوں اکٹھا کر سکتا تھا مگر ادھار مانگ رہا ہے، ڈاکٹر صاحب اِس پر سیخ پا ہوئے، ہماری خوب گرما گرمی ہوئی، بحث کے آخر پر وہ ناراض ہوکر مجھے بیٹھا چھوڑ کر چلے گئے مگر اگلے دن پہلا فون اُن کا آیا، بولے، آج تم نے لنچ میرے ساتھ کرنا ہے، دیسی مرغی بنوائی ہے۔

ڈاکٹر اسلم کا تعلق اوکاڑہ سے، اُن کی زندگی جہدِ مسلسل، لوئر مڈل کلاس سے تعلق، دھکے کھا کھا ڈاکٹری کی، کچھ عرصہ ملازمت کی، پولٹری کے کاروبار میں آئے، پاکستان میں پولٹری انڈسٹری کے بانیوں میں سے ہوئے، مسلسل محنت سے پاکستان کے ٹاپ پولٹری بزنس مین بنے، چیئرمین پولٹری ایسوسی ایشن رہے، راولپنڈی کے الائیڈز اسپتالوں کے سربراہ رہے، اسپتالوں کی حالت بدل کر رکھ دی، اُنہوں نے زندگی میں اتنا کارخیر کیا، اتنے لوگوں کی مدد، دکھوں کا مداوا کیا، بتانے لگوں تو درجنوں کالم لکھنا پڑیں، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں اُن کا کوئی دوست نہ ہو، سیاست، تجارت، صحافت، بیوروکریسی، جوڈیشری، فوج، ہر شعبے میں دوستیاں، وہ سیاست سے دور بھاگتے تھے، اُنہیں سینیٹر بننے کی آفر ہوئی، ٹال گئے، ہمیشہ کہتے زندگی کا جو مزا ’لو پروفائل‘ میں وہ کہیں نہیں، اُن کی زندگی کو اگر ایک لفظ میں سمویا جائے، بیان کیا جائے تو وہ لفظ ہوگا محنت، ساری عمر محنت کی، آخری سانسوں تک محنت کی، سیلف میڈ انسان، اپنے شعبے میں زیرو سے ہیرو بنے، ڈاکٹر صاحب کے ساتھ لاتعداد سفر کئے، جیسے وہ سفر جس میں ڈاکٹر صاحب، میں، دو دوست، محترم سرفراز شاہ کے ہمراہ ایک دن کیلئے ملتان گئے، وہاں سب مزارعات پر فاتحہ خوانی کی، مجھے وہ دن بھی یاد جب اُن کے ساتھ ایک شادی اٹینڈ کرنے بہاولپور گیا، مجھے وہ دن بھی یاد جب اُن کا اسلام آباد کا فارم ہاؤس مکمل ہوا تو مجھے دکھانے کیلئے بلایا، ہم نے ڈھلتی شام میں واک کی، چائے پی، پھر اُسی فارم ہاؤس میں سرفراز شاہ صاحب کے اعزاز میں ڈاکٹر صاحب کے ناشتے میں شرکت کی اور پھر اُسی فارم ہاؤس میں دو دن پہلے ان کا جنازہ ہوا۔

ڈاکٹر صاحب اب جہاز خریدنا اور دنیا بھر کی سیر کرنا چاہتے تھے، وہ اپنا کاروبار بچوں کے حوالے کرکے نگر نگر گھومنا چاہتے تھے، ہم نے اکٹھے لندن اور سوئٹرز لینڈ جانے کا پلان بنایا ہوا تھا، مجھے اچھی طرح یاد وہ ناروے مطلب دنیا کے نارتھ پول (تھرمسو) نادرن لائٹس دیکھنے گئے لیکن ہڈیاں توڑتی سردی سے گھبرا کر واپس آگئے، وہ اچھے بھلے تھے، ایک دن پیٹ میں درد ہوا، دوائی لی، درد ٹھیک ہوا، دوبارہ درد ہوا، چیک اپ کروایا، جگر، معدے اور بڑی آنت کے کینسر لگے، وہ لندن گئے، ہارلے کلینک پر علاج کروایا، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا، ابھی دو ماہ پہلے ایک دن میں نے اُنہیں نیچرل میڈیسن کے ڈاکٹر غلام صابر سے بھی چیک کروایا، اُس دن وہ بہت کمزور، لاغر لگ رہے تھے مگر حوصلے میں تھے، میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرا یہ سخی، غریب پرور، دوستوں کا دوست اتنی جلدی چلا جائے گا، ڈاکٹر اسلم چلے گئے، ایک اور دوست گیا، دل میں ایک اور قبر کا اضافہ ہوا۔

تازہ ترین