• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں سندھ کے محقق پروفیسر اعجاز قریشی کی کتاب ’’کراچی جو کیس‘‘ (کراچی کا کیس) کے حوالے سے یہ حقائق پیش کئے تھے کہ پاکستان بننے کے بعد مرکزی حکومت نے دو بار ٹوٹل 61کروڑ روپے سندھ سے قرضے کے طور پر حاصل کئے۔ اِس کالم کی اشاعت کے بعد مجھے سندھ کے طول و ارض اور بیرون ملک سے کئی ٹیلی فون آئے۔ اُن سب کا مطالبہ تھا کہ فوری طور پر وفاقی حکومت یہ رقم سندھ کو لوٹائے۔ وہ اس بات پر ناراض تھے کہ کیوں سندھ کی کسی بھی حکومت نے مرکز سے یہ رقم واپس کرنے کا مطالبہ نہیں کیا؟ اکثر لوگوں نے سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر مرکزی حکومت سے مطالبہ کریں کہ یہ رقم سندھ کو لوٹائی جائے۔ میں نے اسی کالم میں اسی کتاب کے حوالے سے اس بات کا بھی ذکر کیا تھا کہ جب پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی پہلی مرکزی کابینہ وجود میں آئی جس میں 6سے زائد وفاقی وزراء شامل تھے ان میں سے کسی کا بھی سندھ سے تعلق نہیں تھا لہٰذا اس کا نہ صرف سندھ کے عوام میں بلکہ سندھ کے اکثر اسمبلی ممبران میں بھی شدید ردِعمل ہوا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سندھ جس کی اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرکے پاکستان کا وجود قائم کیا اُس کے ساتھ اِس قسم کی زیادتی کی جارہی ہے؟۔ ’’کراچی کا کیس‘‘ کتاب کے مطابق ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کی کابینہ کا اعلان ہوا تو اس میں سندھ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شامل نہیں تھا، اِس بات پر سب کو حیرت ہوئی، جب دو ماہ گزرنے کے باوجود صورتحال یہی رہی تو اس ایشو پر غور کرنے کیلئے اس وقت سندھ مسلم لیگ کے سربراہ ایوب کھوڑو کی چیئرمین شپ میں سندھ مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کا اجلاس بلایا گیا، اُس کے بعد سندھ مسلم لیگ پارلیمنٹری پارٹی کی طرف سے سخت الفاظ میں ایک بیان جاری کیا گیا کہ ’’اس بات کی وجہ سے شدید بے اطمینانی پیدا ہورہی ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت میں سندھ کو کوئی بھی نمائندگی نہیں دی گئی جبکہ کچھ صوبوں کو بہت زیادہ نمائندگی دی گئی ہے اِس صورتحال میں حکومت پاکستان کی پالیسی سازی میں سندھ کا کوئی کردار نہیں ہے، پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ وفاق کے ڈھانچے میں وفاق کے ہر ایک یونٹ کو قانون سازی اور حکومتی اختیارات میں مساوی حصہ ملنا چاہئے اگر ایسے اقدامات نہیں کئے گئے تو چھوٹے صوبے مثلاً سندھ‘ این ڈبلیو ایف پی اور بلوچستان کی حیثیت پاکستان کے بڑے صوبوں کے غلاموں یا کالونیز جیسی ہو جائے گی‘‘۔ اِس کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ نہ فقط وفاقی کابینہ مگر وفاقی بیورو کریسی میں بھی سندھ کو اس کے حصے سے محروم رکھا گیا۔ اس سلسلے میں دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 1952میں مرکزی سیکریٹریٹ میں پاکستان میں شامل قوموں و علاقوں کی نمائندگی مندرجہ ذیل تھی۔ غیرپاکستانی 2:سیکریٹری‘ 2جوائنٹ سیکرٹری اور 5ڈپٹی سیکرٹری۔ پنجاب کی نمائندگی: 5سیکرٹری‘ 7جوائنٹ سیکرٹری اور 28ڈپٹی سیکرٹری۔ مہاجروں کی نمائندگی: 5سیکرٹری‘ 9جوائنٹ سیکرٹری اور 19ڈپٹی سیکرٹری , بنگالی:سیکرٹری کوئی نہیں‘ 1جوائنٹ سیکرٹری اور 4ڈپٹی سیکرٹری ۔ پٹھان : ایک سیکرٹری‘ جوائنٹ سیکرٹری کوئی نہیں اور 2ڈپٹی سیکریٹری ۔ سندھی:سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری کوئی نہیں صرف ایک ڈپٹی سیکرٹری تھا۔ اِس فہرست کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کابینہ میں پنجاب کی نمائندگی 5سیکرٹریز‘ 7جوائنٹ سیکرٹریز اور 28ڈپٹی سیکرٹریز پر مشتمل تھی‘ اسی طرح مہاجروں کی نمائندگی 5سیکرٹریز‘ 9جوائنٹ سیکرٹریز اور 19ڈپٹی سیکرٹریز پر مشتمل تھی۔ اس کے برعکس مشرقی پاکستان (بنگال) جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا اُس کی نمائندگی زیرو سیکرٹری‘ ایک جوائنٹ سیکرٹری اور 4ڈپٹی سیکرٹریز پر مشتمل تھی‘ اِسی طرح سندھ جو اِس وقت پاکستان کا تیسرا بڑا صوبہ تھا اس کی نمائندگی زیرو سیکرٹری‘ زیرو جوائنٹ سیکرٹری اور ایک ڈپٹی سیکرٹری پر مشتمل تھی۔ سندھ کے لوگ حیران تھے کہ سندھ جس کا ایک باشندہ قائداعظم محمد علی جناح جس نے تحریک پاکستان کی قیادت کی جس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا اس کی وفاقی کابینہ میں یہ نمائندگی طے کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں کتاب میں کہا گیا ہے کہ ’’اِن حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ پاکستان کی ابتدا یا بعد میں چھوٹے صوبوںکے خلاف جو انتظامی اقدامات کئے گئے وہ ملک کے اداروں اور اختیارات پر قابض قوموں و علاقوں نے اپنی اس انتظامی اہمیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فقط اپنے گروہی‘ نسلی اور لسانی مفادات سامنے رکھ کرکئے اور بعد کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال نے یہ اندیشے درست ثابت کئے‘‘۔ اس مرحلے پر میں اس صورتحال کے حوالے سے سندھ کے چند اہم دانشوروں کے سوالات بھی ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ پاکستان بننے کے بعد تو وفاقی کابینہ‘ وفاقی بیورو کریسی اور ملٹری بیورو کریسی میں سندھ کی برائے نام نمائندگی تھی مگر اس وقت کیا صورتحال ہے؟ وفاقی بیورو کریسی میں سندھ کی کیا نمائندگی ہے وہ تو سب کو پتا ہے مگر خود سندھ اوراس کے کیپٹل کراچی میں وفاقی بیورو کریسی اور پرائیویٹ اداروں اور کارخانوں میں سندھ کی جو نمائندگی ہے کیا وہ بھی وفاقی بیورو کریسی میں سندھ کی نمائندگی سے مختلف ہے؟۔ لہٰذا سندھ کے یہ دانشور مطالبہ کررہے ہیں کہ نیلسن منڈیلا کے ’’ٹروتھ کمیشن‘‘ کی طرز پر پاکستان میں بھی ایک ’’ٹروتھ کمیشن‘‘ قائم کیا جائے جو اس بات کا سروے کرے کہ وفاقی اداروں میں مختلف علاقوں اور قومیتوں کے لوگوں کا کیا تناسب ہے؟

تازہ ترین