• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی زمانے میں ہم سوچا کرتے تھے کہ پاکستان میں شہید ہونے والے کسی مقامی صحافی کے خاندان کو انصاف ملے نہ ملے، امریکی صحافی ڈینیل پرل کے خاندان کو انصاف ضرور ملے گا کیونکہ اُس کیس کی پیروی کوئی اور نہیں امریکی حکومت کر رہی ہے۔

وقت نے مگر ہمیں غلط ثابت کیا۔ امریکہ بہادر اپنے شہریوں کی بالعموم اور اپنے صحافیوں کی بالخصوص قدر کرتا ہے اِسی لئے ڈینیل پرل کیس میں انصاف کی توقع غیرفطری نہ تھی۔ ہمارا یہ گمان اِس ٹھوس حقیقت پر بھی مبنی تھا کہ اُن دنوں پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا اور ملکِ خداداد پر ڈالروں کی بارش بھی ہورہی تھی جبکہ اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے ساتھ امریکہ پیار کی پینگیں بھی بڑھا رہا تھا۔

چکر دینے والوں نے افغانستان کی سرزمین ہی نہیں پاکستان کے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی امریکہ بہادر کو ایسا دھوبی پٹکا مارا کہ سب حیران ہیں۔

میری ڈینیل پرل کیس میں دلچسپی کی دو بنیادی وجوہات رہی ہیں۔ اول یہ کہ مذکورہ امریکی صحافی سے اسلام آباد میں اُس کے مختصر قیام کے دوران میری دو مختصر مگر یادگار ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ آپ جس کسی سے مل لیں، اُس سے متعلق کوئی واقعہ یا حادثہ فطری طور پر آپ کو بھی متاثر کرتا ہے۔ وہی میرے ساتھ بھی ہوا۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ اُن دنوں پوری پاکستانی ریاستی مشینری ڈینیل پرل کے اغوا اور قتل میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں بظاہر سرگرم نظر آرہی تھی۔

اُس کیس کی تحقیقات کا پاکستان کے قتل ہونے والے صحافیوں کی تحقیقات سے موازنہ بڑا دلچسپ موضوع تھا اور شاید آج بھی ہے۔ سال 2001میں ڈینیل پرل امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کا رپورٹر تھا، جس کے ذمے پورے جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان و افغانستان میں جنم لینے والی خبروں کو رپورٹ کرنا تھا۔ پرل کا دفتر بھارت میں تھا جہاں سے وہ پورے خطے میں گھوما کرتا تھا۔

امریکہ میں نائن الیون کے واقعات ہوئے تو اگلے ہی روز پرل کراچی آن دھمکا۔ اُنہی دنوں فرانس میں رچرڈ ریڈ نامی ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا گیا جو اپنے جوتے میں بم چھپا کر امریکہ جانے والی ایک پرواز کو مبینہ طور پر تباہ کرنا چاہتا تھا۔

اُس شخص سے تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا کہ وہ ایک پاکستانی مذہبی شخصیت سید مبارک گیلانی کا ماننے والا ہے۔ پرل کو اِس بات کی اطلاع ملی تو وہ مبارک گیلانی کی تلاش میں نکل پڑا اور اُسے ڈھونڈتا ہوا 11جنوری 2002کو راولپنڈی کے اکبر انٹرنیشنل ہوٹل میں بشیر نامی ایک شخص سے ملا۔ یہ بشیر نامی شخص دراصل احمد عمر سعید شیخ تھا۔ جس نے اُسے مبارک گیلانی سے ملاقات کرانے کا وعدہ کیا۔

برطانیہ سے تعلیم یافتہ احمد عمر سعید شیخ کا ایک جہادی پس منظر تھا۔ وہ نوے کی دہائی میں بھارت میں کچھ غیرملکیوں کے اغوا کی کوشش میں گرفتار ہوکر جیل بھیجا گیا تھا اور بعد میں دسمبر 1999میں ایک بھارتی طیارے کے افغانستان میں اغوا کے بعد اُس کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ پرل کو البتہ ’’بشیر‘‘ کا پس منظر معلوم نہ تھا۔

دونوں کی اگلی ملاقات کراچی میں 23جنوری 2002کو ہوئی پھر اُس کے بعد ڈینیل پرل کو کسی نے نہ دیکھا۔ جنوری کے آخری ہفتے میں پرل کی رہائی کے عوض افغان قیدیوں کی رہائی اور امریکہ سے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی جیسے مطالبات ای میل کے ذریعے امریکی حکام کو موصّول ہوئے۔ بعد ازاں 21فروری کو ایک وڈیو منظر عام پر آئی جس میں پرل کو نقاب پوش شخص کے ہاتھوں بہیمانہ انداز میں قتل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔

پولیس کے مطابق امریکی حکام کو ملنے والے مطالبات کی ای میلز کی تحقیقات کے دوران کراچی کے جس گھر سے ای میل کے لئے انٹرنیٹ استعمال کیا گیا۔ اس گھر کے دو لڑکوں کو حراست میں لیا گیا۔ جن سے پوچھ گچھ کے دوران احمد عمر سعید شیخ کا نام سامنے آیا۔

عمر سعید شیخ لاہور کا رہنے والا تھا اس لئے اس کے گھر والوں کو حکومت نے روایتی انداز میں ہراساں کیا تو اس نے رضا کارانہ طور پر 6فروری 2002کو اِس وقت پنجاب کے ہوم سیکرٹری اور موجودہ وفاقی وزیر بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کے دفتر میں خود کو حکومت کے حوالے کیا۔

ڈینیل پرل قتل کیس کی تحقیقات میں بظاہر جان بوجھ کر کافی سقم چھوڑے گئے مگر اس کے باوجود اس وقت تو مقامی عدالت نے ملزمان کے خلاف فیصلہ دے دیا مگر کیس سندھ ہائیکورٹ میں چلا تو عمر شیخ کے وکیل محمود شیخ نے کیس میں پیش پولیس کے اپنے چالان کی روشنی میں تحقیقات کی دھجیاں اڑا دیں۔

سندھ پولیس نے احمد عمر سعید شیخ کے خلاف کراچی سے گرفتار جن دو ملزمان کے اعترافی بیان پر کیس کی عمارت کھڑی کی تھی، محمود شیخ نے انہی بیانات کی روشنی میں ثابت کیا کہ وہ اعترافی بیانات دبائو اورتشدد کے ذریعے لئے گئے تھے۔

پولیس تو عدالت میں پرل کا قتل تک ثابت نہ کر سکی کیونکہ عدالت میں پوسٹ مارٹم رپورٹ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور آلہ قتل کچھ پیش نہ کیا گیا۔ یوں سارے کیس کی عمارت دھڑام سے گرگئی۔

اب سندھ ہائیکورٹ نے عمر سعید شیخ کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے اور اسی کیس سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی اپیل زیر سماعت ہے۔ پرل کے قتل کو اٹھارہ سال بیت گئے مگر پاکستانی سرزمین پر تمام تر امریکی اثر و رسوخ کے باوجود ڈینیل پرل کو انصاف ملا نہ اُس کے قاتل پکڑے گئے۔

پرل کے قتل کے بارے میں امریکہ کی قید میں نائن الیون واقعات کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد نے بھی اعترافی بیان دے رکھا ہے کہ یہ قتل انہوں نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس قتل کے پیچھے چھپے کئی سچ آج اٹھارہ سال بعد بھی منظر عام پر نہیں لائے جا سکتے۔ تاہم ایک بات تو ضرورثابت ہوئی ہے کہ ہمارے ہاں سچ کی کھوج لگاتے کسی بھی صحافی کی جان محفوظ نہیں۔ صحافی پاکستانی ہو یا امریکی ’’ناپسندیدہ‘‘ موضوعات پر تحقیقات کرے گا تو جان سے جائے گا۔

تازہ ترین