• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

73سالہ پاکستان کی سیاسی و حکومتی تاریخ کی تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ نومولود مملکت میں ڈگمگاتی سول حکومتوں کے پہلے عشرے (1948-58) کے 41برسوں 1958تا 1999، میں تقریباً عشرے عشرے کے تین مارشل لا لگے۔ اسی عرصے میں 4سالہ تباہ کن یحییٰ خانی مارشل لا (1968-71) مغربی پاکستانی نو منتخب پارلیمانی قوت سے گٹھ جوڑ کرکے ملک کے دو لخت ہونے کا باعث بنا۔ ایک ایک دہائی کے جو تین مارشل لا لگے، وہ اپنے اپنے ابتدائی تین برسوں میں اپنی خالص شکل بدل کر ’’ملٹری۔ سول گورنمنٹ‘‘ کے انوکھے حکومتی ماڈل میں تبدیل ہوئے۔ پہلے ایوبی مارشل لا کو کنونشن مسلم لیگ، ضیائی کو پاکستان قومی اتحاد کے ٹوٹے ستاروں اور جنرل مشرف کی مہم جوئی کو ق لیگ کا تڑکا لگا، تاہم اصل انتظامی طاقت کا مرکز و محور تینوں جنرل صدور ہی رہے۔ تینوں ادوار میں ’’کامیاب‘‘ مصنوعی سیاسی استحکام کے سہارے اقتصادی ترقی تو ہوئی اور خاصی ہوئی لیکن تینوں عشروں کے آخری برسوں میں جیسے جیسے ’’سیاسی استحکام‘‘ کا پول کھلتا گیا، ویسے ویسے قومی اقتصادی معیشت کا گراف بھی گرتا جاتا۔ تجزیہ تو تفصیل طلب مطلوب ہے جو موضوع سے ہٹا دے گا لیکن یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سول حکومتوں کی بیورو کریسی کے ساتھ گٹھ جوڑ اور ایک دوسرے کے خلاف حکومتیں اکھاڑنے اور غیرجمہوری ہتھکنڈوں سے ہتھیانے کے سازشی کلچر نے آنے والے برسوں میں ’’ملٹری۔ سول حکومتوں‘‘ کے لئے اتنی بڑی جگہ بنانے کی منحوس بنیاد رکھی۔ وہی (پہلے عشرے کی سول حکومتیں اور بیوروکریسی) نہیں، وائے بدنصیبی، پہلے مارشل لا کے بعد جو باقی ماندہ پاکستان میں منتخب سول حکومتوں کے جو تین ادوار 1972-77کا بھٹو دور 1988-98 کا بےنظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کا عشرہ قوم کو نصیب ہو ہی گئے، وہ مملکت کے پہلے حکومتوں اور سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی مجموعی سازشوں، بدنیتی اور ریشہ دوانیوں سے ڈگمگاتے، لڑکھڑاتے عشرے سے بھی کہیں بڑھ کر بدتر ثابت ہوئے۔ ایسے کہ اقتدار کے ایوانوں کی سطح سے نیچے کی انتظامیہ بڑی حد تک قانون قاعدے کی پابند، اہل اور باوقار تھی۔ بحیثیت مجموعی جوڈیشری بھی۔ سیاستدانوں کی ریشہ دوانیاں بھی پاور پولیٹکس کے حوالے سے ہی تھیں، قومی خزانہ جتنا محدود تھا اتنا محفوظ بھی رہا، رشوت اور سفارش کا غلبہ نہیں ہوا۔ دھما چوکڑی نہیں مچی۔ کوئی ایف ایس ایف بنی سانحہ لیاقت باغ ہوا نہ تاج پورا۔ کرپشن کلچر اور سسٹم نہ بن سکی نہ چھانگا مانگا اور سوات جیسی منتخب نمائندوں کی منڈیاں لگیں۔ ملک بےآئین تھا تب بھی قانون کی حکمرانی کا گراف اِن دھما چوکڑی ادوار سے کہیں اوپر رہا۔

اِس 50سالہ پس منظر کو لئے این آر او کے راستے پھر جو بحالی جمہوریت کا دور الیکشن 2008سے شروع ہوا وہ (ﷲ نہ کرے، آج کی ملکی صورتحال تو یہ ہی ظاہر کر رہی ہے) آخری موقع تھا کہ ’’ملٹری۔ سول حکومتوں‘‘ کے انوکھے حکومتی ماڈل کی کوکھ سے نکلی ہماری دونوں ہی پارلیمانی قوتیں ن لیگ اور پی پی، 1908تا 1918کے عشرے کو کفارے بشکل اصلاحات، شفافیت اور آئین کی حکمرانی کا عشرہ بناتیں، لیکن اِس بار تو حد ہی کر دی، وہ دھما چوکڑی مچی کہ ﷲ ﷲ لگا کیا یقین ہو گیا کہ واقعی پاکستان مملکت خداداد ہے، ﷲ کے رحم و کرم پر ہر حالت میں چلے جا رہا ہے۔ اسٹیٹس کو کی بڑھتی شدت میں سے، اسٹیٹس کو کا رنگ پکڑنے پر ’’تبدیلی حکومت‘‘ تیسری کامیاب مقابل پارلیمانی قوت بن کر حکومت بنانے میں جیسے تیسے کامیاب ہو ہی گئی۔ گزشتہ دو سال میں ثابت ہو گیا کہ گزرے بحالی جمہوریت کے عشرے میں دونوں پاپولر روایتی جماعتوں جس دھما چوکڑی دور کا دفاع اِس گھڑے بیانیے ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے‘‘ سے کیا گیا، اس کی جگہ تبدیلی حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ’’نئے پاکستان‘‘ کی نئی حکومت اسٹیٹس کو کے وائرس سے خاصی متاثر ہو کر اقتدار میں آئی ہے۔ سارے گند اور قومی معیشت کے ملبے کو تلف اور ہٹا کر ’’نئے پاکستان‘‘ کی راہ کے لئے گورننس کے تجربے سے زیادہ ہوم ورک، اہل دیانت دار اور پُر خلوص ٹیم مطلوب تھی جو وزیراعظم کے پاس نہیں تھی پھر ان کے اپنے اناڑی پن، نتیجہ جس وائرس زدہ جتھے کے ساتھ اُنہوں نے اقتدار شروع کیا پہلے تو اسے سابقہ ادوار کے وفا شعار معاون بابوئوں نے آڑے ہاتھوں لیا، آٹے، چینی کی سپلائی لائن سٹوریج اور بلا جواز ایکسپورٹ اور سمگلنگ سے عوام تک ڈلیوری اور قیمتوں میں استحکام نظام دھرم بھرم کر دیا، اوپر سے وزیراعظم کی اپنی کابینہ اور مشاورتی گروہ میں وائرس زدہ مشیروں، ترجمانوں اور معاونین منفی طاقت پکڑ کر اپنا رنگ دکھایا۔ تو تجربے کار گھاگ (روایتی سیاست میں) مولانا صاحب نے بالآخر پی ڈی ایم کا پریشر ٹول تیار کر کے اِس کا جارحانہ استعمال شروع کر دیا۔ اس سارے پس منظر میں خاں صاحب کی حکومت پر نواز حکومت کے کمال خزانے دار کی تمام شعبدے بازیاں بے نقاب ہو گئیں، خود تو وہ بہت پہلے ہو کر کھسک گئے۔

اس واقعہ پر کہ برباد قومی معیشت کی ذمہ داری ’’حصہ بقدر جثہ‘‘ کے اصول پر تقسیم ہوتی ہے جس کا جتنا دور حکومت رہا، وہ اتنا ذمہ دار۔ عمران حکومت بھی اپنی جزوی وائرس زدہ ٹیم کے باعث چھوٹے حصے کی ذمہ دار بن گئی، معاملہ فقط اڑہائی سال کی حکومت کا نہیں، نااہلیت اور ٹیم میں مشکوک انڈوں کا بھی ہے۔

تاہم قومی معیشت کی راکھ دبی چنگاریوں کو کام میں لا کر خان حکومت نے کام دکھا دیا۔ اس شدید بحران پی ڈی ایم کے شدید لیکن لاحاصل پریشر میں بھی بڑی بات ہے کہ فقط گزشتہ ایک سال میں نومبر تا نومبر حکومتی ترغیبات سے سوئی ٹیکسٹائل انڈسٹری پوری آب و تاب سے چل پڑی ہے۔ ٹیکسٹائل کے ایکسپورٹ آرڈر سنبھالنا مشکل ہو رہے ہیں۔ ڈیڈ ویئر کی برآمد میں 21سرجیکل آلات 21کیمیکلز 69اور انجینئرنگ گڈز میں 5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے 200کمپنیوں پر مشتمل کنسورشیم 5ارب ڈالر کی شراکتی سرمایہ کاری پر مکمل آمادہ، روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کی کامیابی کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ریجنل سطح کے انقلابی ریلوے لنکس پائپ لائن میں آ گئے۔ یہ سب ڈار برینڈ اکنامک گیمکس کے برعکس، حقیقی اقتصادی اٹھان کے عشاریے ہیں۔ وزیراعظم اپنی توجہ کا فوکس اسی کو قائم رکھنے اور بڑھانے پر رکھیں۔

تازہ ترین