• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں دنیا کے مشہور دانشور نوم چومسکی نے کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں ورچوئل لیکچر کے دوران آج کے پاکستانی معاشرے کی تنزلی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ سائنس سے دوری اور انتہا پسندی کا فروغ ہے۔ یاد رہے کہ گیارہویں سے انیسویں صدی تک کاٹن دنیا کی سب سے بڑی مینوفیکچرنگ انڈسٹری تھی جس پر نو آبادیاتی حکمرانوں کے آنے سے پہلے ہندوستانی سماج نے تین سو سال تک گلوبل حکمرانی کی، جس میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ٹیپو سلطان اور رنجیت سنگھ نے یورپ سے جدید ہتھیار سازی کا فن حاصل کرکے نو آبادیاتی حکمرانوں سے بھرپور مقابلہ کیا۔ آج بھی ہمارے نوجوان امریکہ اور یورپ میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے اگر پاکستانی ریاست عوام میں سائنسی اور تخلیقی صلاحیتوں کو دوبارہ سے ابھارنا چاہتی ہے تو اسے راہ میں حائل توہماتی اور رجعت پسندانہ رکاوٹیں ہٹا کر سائنسی شعور کو ابھارنا ہوگا۔ نوم چومسکی نے جس طرح پاکستان میں سائنسی کلچر کے زوال کو سماجی زوال کے ساتھ منسلک کیا ہے اس سے یہ سوال ابھر کر آتا ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جو سائنسی عمل آگے بڑھ رہا تھا وہ کیوں رُک گیا؟ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک نے نوآبادیاتی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سیکولر ہیئت اختیار نہیں کی اور اپنے مذہبی عقائد کے ساتھ ساتھ سائنسی ترقی بھی کی۔ پاکستان میں بھی ساٹھ کی دہائی تک سائنسی کلچر رواں دواں تھا اور دنیا بھر میں مادی ترقی کیلئے ریاست ہی سب سے بڑا منبع تھا۔ اس نہج میں زوال اس وقت آیا جب ضیاء الحق نے اپنی حکمرانی کا جواز حاصل کرنے کیلئے ایک روحانی جواز تلاش کیا جس سے پاکستانی معاشرے سے سائنس کی تنزلی کا آغاز ہو گیا۔ سونے پہ سہاگہ کہ ریاست نے بھی اپنی پالیسیوں کے ذریعے سائنسی کلچر کو رفتہ رفتہ نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے زیر اثر کر دیایوں سائنس اور ریسرچ میں مختص ہونے والا بجٹ نیوکلیئر ریسرچ کی نذر ہو گیا جو ہر قسم کے آڈٹ سے مبرا بھی تھا۔ ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو تقویت دینے کیلئے سائنسی ریسرچ کے نام پر سائنس اور عقائد کے موضوع پر پے در پے بین الاقوامی کانفرنسیں کروائیں۔ اسی کی دہائی میں نہ صرف سماج کوسائنس سے دور کردیا بلکہ فرقہ پرستی کوبھی ہوا دی۔یوں پاکستان جیسے پسماندہ معاشرے میں جہاں تین چوتھائی آبادی پہلے ہی تعلیم سے محروم تھی وہاںسائنس سے دوری اور فرقہ پرستی کے ابھار نے سماجی تنزلی کو ہمارا مقدر بنا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستی دانشوروں سے یہ بیانیے بھی دلوائے گئے کہ پاکستان تہذیب و تمدن، کلچر، سماجی و معاشی ثمرات حاصل کر کے ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور جلد ہی طالبان کے ذریعے روس کو شکست دے کر اپنے ترقی کے باقی اہداف بھی حاصل کر لے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کوئی سماج اپنے آپ کو مکمل تصور کر لیتاہے تو اس میں نئے علوم حاصل کرنے کاجذبہ نہیں رہتا۔ ایسا ہی پاکستانی معاشرے کے ساتھ ہوا اور یوں سماج نے سائنسی سوچ چھوڑ کر ماضی میں پناہ لینی شروع کردی اور حال و مستقبل سے آنکھیں بند کر لیں۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے میں سائنسی سوچ کے فقدان کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی دانشوروں کی اکثریت نے سماج میں مروجہ رجعتی اور پسماندہ اقدار کو چیلنج کرنے کی بجائے ریاستی بیانیے کا ساتھ دیااور سقراط کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے اپنی سماجی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کرتے رہے مگر آج بھی کچھ سائنس دانوں اور دانشوروں نے پاکستان میں ابھی ہمت نہیں ہاری جس میں پرویز ہودبھائی، ڈاکٹر مبارک علی ودیگر قابل ذکر ہیں جو دل جمعی سے اپنی سائنسی اور ترقی پسند آرا سے سماجی افکار کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔آج پاکستانی اشرافیہ جدیدٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے آلات کا استعمال تو کر رہی ہے لیکن ان تمام آلات کی درآمد پاکستانی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ پاکستان میں نہ صرف ان آلات کو سائنسی طرز پر خود پیدا کرنے کی نہ تو صلاحیت پیدا کی گئی ہے اور نہ ہی اس سائنسی فکر وسوچ کو پروان چڑھایا گیا کہ جس کی وجہ سے یہ آلات پاکستان میں بنائے جا سکیں۔ اگر ہمارا معاشرہ ان آلات کو بطور صارف استعمال کرتا رہے گا اور انکو بنانے کی جستجو اور سوال کرنے کی سکت سے جب تک عاری رہے گا اس وقت تک پاکستان نہ صرف اکیسویں صدی کے ثمرات حاصل نہ کر سکے گا بلکہ جمہوری اور فلاحی ریاست کے اہداف کی طرف گامزن بھی نہ ہو سکے گا۔

تازہ ترین