• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب ترجمانوں کی فوج ظفر موج منہ دکھائے بھی تو کیسے، جب خود وزیراعظم نے اعترافِ ناکامی کر لیا۔ عمران خان صاحب کو ان کی صاف گوئی پہ داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ 

موصوف نے اعتراف کر ہی لیا کہ سو روز کے ہنی مون پیریڈ میں پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کہاں آن پھنسے تھے، پھر بھی اُنہوں نے بغیر سوچے سمجھے ایک بہت ہی زوردار پیکج کا اعلان کرنے میں زرہ بھر ہچکچاہٹ نہ کی، 10ارب درختوں کی سونامی، ایک کروڑ نوکریاں، 50لاکھ گھر، احتساب اور لوٹے ہوئے سینکڑوں ارب ڈالر کی واپسی اور جانے کیا کچھ۔ کبھی انڈے، کبھی مرغیاں اور کبھی کٹے، تو کبھی پبلک ٹائلٹس اور خوش کن اعلانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔ 

پھر ڈھائی برس ماضی کے عذابوں کو کوستے گزر گئے۔ اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں کپتان ایسا پھنسا کہ کسی کام کی نوبت نہ آئی۔ سینکڑوں نہیں تو درجنوں کمیٹیاں بنائی جاتی رہیں، ان کی رپورٹس کا یاتو انتظار ہی رہا یا پھر ان پر عمل درآمد تشنہ تکمیل رہا۔ 

غالباً ذوالفقار علی بھٹو نے جتنی کمیٹیاں اور کمیشن بنائے تھے، خان صاحب نے ان کا ریکارڈ توڑ دیا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ بھٹو صاحب مین آف ایکشن ثابت ہوئے تھے، انہوں نے جو کہا تھا کافی حدتک کر بھی دکھایا تھا۔ وزیراعظم آفس میں روزانہ خصوصی اجلاس ہوتے ہیں اور کابینہ ہر ہفتے کیا ہفتہ میں بار بار ملتی ہے۔ 

ساری حکومت وزیراعظم آفس میں مقید ہو کر رہ گئی ہے اور عملی میدان میں دکھانے کو کچھ بھی نہیں۔ لے دے کہ بس ایک ہی بہانہ بچا کہ ماضی کی حکومتوں کے کردہ ناکردہ گناہوں کا بوجھ اتارنا پڑرہا ہے اور یہ کہ کرپٹ عناصر کو این آر او نہیں ملے گا۔ آخر کب تک یہ بیانیہ کام آتا۔ لوگوں کو ماضی سے غرض کم اور موجودہ حکمرانوں سے کچھ ’’تبدیلی‘‘ کی امید بھی جاتی رہی۔ آخر کب تک احتساب کے پٹے ہوئے بیانیے کا ڈھول بیچارے ترجمان پیٹتے کہ ایک لوٹا ہوا دھیلا بھی خزانے میں واپس نہ آسکا۔ 

سو اب اپوزیشن کے لتے لینے کے سوا ان کے پاس رہا کیا ہے۔ ہر دوسرے روز وزیراعظم آفس میں ترجمانوں کا اجلاس منعقد کیا جاتا ہے کہ کس طرح اپوزیشن سے تلخی بڑھائی جائے اور وہ صبح شام اپوزیشن کو اشتعال دلانے پہ لگے ہیں۔

جن اصلاحات کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا، ان میں سے کوئی بھی سرے نہ چڑھی۔ پولیس کی اصلاحات کا بیڑا اٹھایا گیا لیکن اس کا اور بھی بیڑہ غرق کردیاگیا۔ 

مقامی حکومتوں کو اختیارات سونپنے کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ جو پہلے سے تھیں، معطل کردی گئیں اور جس کا خواب دکھایا گیا تھا، جانے کس فائل میں گم ہو کے رہ گیا۔ 

رہی معیشت جو پہلے نیم انقلابی حکمت کی بھینٹ چڑھی، پھر آئی ایم ایف کے کارندوں کے حوالے کردی گئی لیکن آئی ایم ایف کا نسخہ بھی نہ چلا اور بیچ میں چھوڑ دیا گیا۔ 

اب پھر آئی ایم ایف سے رجوع کیلئے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے سے لے کر اضافی محاصلات کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ بھلا کوئی پوچھے ان معیشت کے عطائیوں سے کہ کورونا کی عالمی وبا کے زمانے میں آئی ایم ایف کے کمر کس اور طلب کُش نسخے پژمردہ معیشت کو کیسے بحال کر سکتے ہیں۔ جو تھوڑی بہت حرکت صنحتی شعبہ میں نظر آئی، بھی وہ بھی پھر سے گُھٹ کر رہ جائے گی۔ 

دنیا بھر کی ترقی یافتہ معیشتیں اب حکومتی مالیاتی ٹیکوں پر چل رہی ہیں۔ کھربوں ڈالرز معیشتوں کو بحال کرنے پہ لگائے جارہے ہیں، جبکہ آئی ایم ایف کو ہماری کمریں کسنے کے لئے پھر سے بلایا جا رہا ہے۔ پاکستانی معیشت کے گدھے پہ لدے کچے برتنوں پہ آئی ایم ایف کا ایک اور ڈنڈہ پڑا تو جو بچ رہا تھا، وہ بھی نہیں رہے گا۔ کمر تو پہلے ہی بہت کس دی گئی تھی۔ اب کیا کسر باقی رہ گئی ہے۔ 

کبھی حکومتی رضا و شراکت سے چینی اور آٹے کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ کبھی تیل بیچنے والی کمپنیاں تیل کی درآمد پر بندش سے فائدہ اٹھا کر بلیک میں تیل بیچتی ہیں، تو کبھی گیس کے سودے بروقت اور سستے نہ کرنے سے نہ صرف یہ کہ خزانے کو سینکڑوں ارب روپے کا خسارہ ہوتا ہے بلکہ گیس کا بحران بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ 

بوجھ صرف صارفین پہ پڑتا ہے اور طرح طرح کی مافیاز کی چاندی ہو جاتی ہے۔

مجھے ڈر لگتا ہے کہ کسی روز وزیراعظم خود اپنی کابینہ کے خلاف کنٹینر پر نہ چڑھ جائیں اور ان کے مداحین پھر سے اپنے ہیرو کی ناکامی پہ جھلا کر حکومتی وزراء کا گھیرائو نہ شروع کردیں۔ جس طرح صبح شام کے نت نئے دعوئوں اور پھر ان پر یوٹرنز نے انصاف حکومت کے لئے کچھ نہیں چھوڑا، آئندہ دو برس میں وہ کونسی لنکا ڈھائے گی کسی کو اب کوئی شبہ نہیں رہا۔ 

اپوزیشن کو اور کیا چاہئے تھا جو خود وزیراعظم کے انکسار نے اسے فراہم کردیا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ترجمانوں کی تلخ نوائی آئے روز رائے عامہ کو حکومت کے خلاف کئے جاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت اپوزیشن کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مصالحتی رویہ اختیار کرے، یہ الٹا حزبِ مخالف کو آ بیل مجھے مار کی دعوت تسلسل سے دیے جاتی ہے۔ 

اب حکومت کے پاس پرفارمنس دکھانے کا وقت بہت کم بچا ہے۔ ناکامی اور شکست کے خوف سے کہیں یہ وہ راہ نہ لے لے جو ٹرمپ نے بائیڈن سے شکست کے بعد اختیار کی۔

 آئندہ مہینوں میں اور مارچ اپریل میں پی ڈی ایم کی تحریک اپنے عروج پہ ہوگی اور حکومت کے پاس بحران سے نکلنے کی راہیں مسدود تر ہوجائیں گی۔ پھر کیا ہوگا؟ عمران خان کے لئے یہ پہلا اور غالباً آخری موقع تھا جو وہ تقریباً گنوا بیٹھے ہیں۔

 ایسے میں وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔تبدیلی آئی نہیں، آگئی ہے، حالات بدسے بدتر ہو چلے ہیں لیکن تجربہ کار اپوزیشن کو حالات کی نزاکت کو سمجھنا ہوگا کہ عمران خان کو حکومت سے نکالتے نکالتے کہیں آئینی جمہوریت کی ہی سانس ٹوٹ نہ جائے۔

تازہ ترین