• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی ہم نے بحیثیت مسلمان یہ سوچا کہ ہے 50سے زائد مسلمان ممالک ہونے کے باوجود ہم سب سے زیادہ پسماندہ اور مظلوم کیوں ہیں؟ اِس کی سب سے بڑی وجہ ہم خود ہیں۔ ہم نےمسلمان ممالک کی واحد متحدہ تنظیم او آئی سی بنائی لیکن اس کو جان بوجھ کر ہمیشہ غیرفعال رکھا۔

 یہ تنظیم صرف ایک دفتر اور کاغذوں میں پائی جاتی ہے اور جب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ترکی کے صدر طیب اردوان اور ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد سے او آئی سی کو فعال کرنے یا پھر ایسی ہی مسلمانوں کے لئے نئی فعال تنظیم بنانے پر تبادلہ خیال کیا تو سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے بہت برا منایا اور وزیراعظم عمران خان کا طیارہ جب امریکہ سےدو ڈھائی گھنٹے دور پرواز کر رہا تھا۔

واپس امریکہ منگوا کر عمران خان کو اتار دیا اور یہ کہا کہ طیارے میں کوئی فنی خرابی ہو گئی تھی۔ گویا یہ غم و غصے کا اظہار تھا جس سے خود عمران خان کو ملائیشیا اور ترکی کے صدر کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات خراب ہونا شروع ہوئے اور اب ہمیں 3ارب ڈالر کے قرضے بھی واپس کرنا پڑے۔

 جو چین نے بروقت پاکستان کو کم سود پر فراہم کئے۔ قوم کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ آج تک او آئی سی نے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف جس میں بھارت اور برما سرفہرست ہیں، کبھی بھی ان کی مذمت کی اور نہ ہی عملی مدد کی۔ اس کے برعکس خلیجی ممالک نے بھارت کے ساتھ تیل کے معاہدے کئے، اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ اس سے دفاعی معاہدہ بھی کیا۔ 

حالانکہ پوری یورپین امریکن لابی مسلمانوں کے خلاف یک زبان رہتی ہے۔ خواہ معاملہ اسرائیل کا ہو یا کسی مسیحی برادری کا ہو، سب ایک ہو جاتے ہیں۔ کسی معاملے میں کوئی اسلامی ملک بھارت کی مذمت نہیں کرتا نہ پاکستان کے موقف کی تائید کرتا ہے تو پھر کیسے مسلمانوں کا تحفظ ہو گا؟ اسی لئے دشمنان اسلام کھل کر ظلم کرتے ہیں۔ 

اگر خلیجی حکمران کشمیر کے معاملے میں مداخلت کرتے اور بھارت کو دھمکی دیتے کہ اگر کشمیر پر ظلم بند نہیں ہوا تو ہم لاکھوں بھارتی جو خلیجی ملکوں میں ملازمت کرتے ہیں کو فارغ کردیں گے تو بھارت کی کیا مجال تھی کہ وہ کشمیریوں پر ظلم جاری رکھتا گویا مسلمان حکمران صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ 

بھارت اقوامِ متحدہ میں اپنے آپ کو سیکولر کہتا ہے مگر ہندوئوں کی حفاظت کے لئے امریکہ سے بھی ٹکر لے لیتا ہے، امریکہ مسیحی اکثریتی ملک ہوتے ہوئے یہودی ملک اسرائیل کی ہر جائز اور ناجائز بات مان کر اس کو کھل کر فلسطین، شام کے مسلمانوں پر بمباری کرنے سے نہیں روکتا۔ 

دنیا میں جہاں جہاں اسرائیلی اثرورسوخ ہے وہاں وہ یہودیوں کی حفاظت کی ضمانت مانگتا اور جو یہودی دنیا کے کسی بھی خطے میں رہتے ہیں، وہ اسرائیل آکر آباد ہو سکتے ہیں۔ 

ہم مسلمان ممالک کے عوام اگر کسی دوسرے مسلمان ملک آنا جانایا آباد ہونا چاہیں تو دور کی بات ہے، ویزے کے بغیر آجا بھی نہیں سکتے جبکہ یورپی یونین کےممالک میں آنے جانے کے لئے ویزے کی ضرورت نہیں ۔ اِس لئے مسلمان آج بھی پسماندہ اور خوار ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیں، 50سال پہلے پاکستان دو لخت ہوا، آج بھی ڈیڑھ، 2لاکھ پاکستانی جو مشرقی پاکستان میں پھنس گئے تھے، ان کو پاکستان نہیں لایا گیا۔ 

آج وہ وہاں اپنے ہی بنگلہ دیشی مسلمانوں کے درمیان درد ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کوئی ان کی مدد کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایک مسیحی پاکستانی خاتون آسیہ بی بی کو جب ہماری عدلیہ سے قران پاک کی بےحرمتی پر پھانسی کی سزا ہوئی تو پوری مسیحی برادری اس کو رہا کرانے پر تُل گئی، یہاں تک کہ موجودہ پوپ بھی اس کی حمایت میں آگے آئے اور اس کو رہا کروا کر فرانس میں آباد کردیا۔ 

دوسری طرف ایک پاکستانی خاتون عافیہ صدیقی 15سال سے امریکہ کی جیل میں بند ہے۔ یہ صدر ٹرمپ سے معافی دلوانے کا آخری موقع ہے،اُنہوں نے تو عراق میں جنگی جرائم میں ملوث 5افراد کو معافی دے دی ہے جبکہ عافیہ صدیقی پر تو صرف بندوق دکھانے کا الزام تھا۔ 

وہ سب ادارے و این جی اوز جو اپنے آپ کو لبرل اور ہیومین رائٹس کے علمبردار کہتی ہیں، کیا سوئے ہوئے ہیں؟ خود ہمارے سابق وزیراعظم نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم عمران دونوں اپنے وعدوں سے پھر گئے اور آج تک امریکہ سے اس کی رہائی کی بات تک نہیں کرتے۔ 

امریکہ کے ریمنڈ ڈیوس جس نے ایک پاکستانی کو گاڑی سے کچلا اور پھر قتل کیا، امریکہ نے اس کو رہائی دلوائی۔ آج وہ امریکہ میں عیش کی زندگی گزار رہا ہے۔ پھر لوگ پوچھتے ہیں مسلمان پوری دنیا میں کیوں ذلیل و خوار ہیں؟ کوئی ہمیں بتلائے یا ہم بتلائیں کیا۔

تازہ ترین