• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے سیاست تو کہاں جائے گی؟

یوں لگتا ہے کہ پانی میں آگ لگی ہوئی ہے، انسانوں کو کورونا نے اور پاکستان کو کورونائی سیاست نے دبوچ رکھا ہے، ریاست کو سیاست بے فراست نے گرفت میں لے رکھا ہے، گویا کام کے پانچ سال بھی آدھے تو گزر گئے، باقی اپوزیشن کی ہانڈی میں ضد اور انا کی آگ نے ایسا اُبال پیدا کر دیا ہے کہ حکومت کا سفر اپنی مرضی سے کٹ ہی جائے گا آہستہ آہستہ۔ مقاصد میں شاید ہوس کی آمیزش اچھے نتائج نہیں آنے دیتی، خود کو الزام کوئی نہیں دیتا، فوج کو طعنے دیے جا رہے ہیں، اپنی شمشیروں کو کند نہ کیا جائے باقی جو مرضی ہے کیا جائے کیونکہ مودی بہت فعال ہو چکا ہے اور وہ ہماری افواج کے مورال کو ہمارے ذریعے ہی پست کرنا چاہتا ہے، نازک موڑ پر نزاکت نہیں صلاحیت کام آتی ہے۔ جب نپولین کی تلوار مصریوں کے سر پر تھی تو وہ جامعہ ازہر کے علماء کے پاس استفتاء کے لئے گئے، انہوں نے سورئہ یٰسین کا ختم کرنے کا فتویٰ تھما دیا اور فاتح دشمن نے بھی کہا، آپ نے قرآن کا غلط اور بے وقت استعمال کیا، قرآن تو دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے گھوڑے باندھ کر رکھنے کا حکم دیتا ہے، یہ جو سیاسی دنگل جاری ہے تو کہا جا سکتا ہے؎

اے سیاست تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے

ورنہ کل سب متاثرین، سراپا شبِ ہجراں ہوں گے

باگ ڈور والوں کا یہ حال کہ بقول غالب؎

نے باگ پر ہے ہاتھ نہ پائوں رکاب میں

کیا ہم اپنے بھلے کے لئے سب یکجا نہیں ہو سکتے، وطن کے لئے نہ سہی اپنی غرض کے لئے بھی؟ پوچھ گچھ کرنے والے خود زلف تار تار ہیں، اور بے حکمت سب حکومت یار ہیں نے یہ کیسا ملک ہے جہاں فریقین عوام پر بار ہیں، سچ کہتے ہیں کہ عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں اور سو سو گناہ کرتے عوام کے زور پر اب بھی ’’ڈلے بیراں دا کجھ نئیں گیا‘‘، سنبھل جائیں آپ سب ایک ہیں مگر کس بات پر، یہی بات غور طلب ہے۔

٭٭٭٭

انقلاب کس کا فریز ہوا؟

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے فریزنگ بیان داغا ہے کہ سردی میں اپوزیشن کا انقلاب فریز ہو گیا۔ مگر اے کشتۂ تبدیلی تیرے انقلاب کو کیا ہوا، کہ سخت سردی اور کورونا کی یلغار میں عوام کی جیبیں منجمد ہو گئیں وہ دو وقت کی روٹی کے لئے ہاتھ جیب میں ڈالنا چاہتے ہیں تو ہاتھ فریز ہو جاتا ہے، یہ کس نے اوپر اور نیچے والا ہاتھ مفلوج کر دیا ہے؟ بازارِ اقتدار میں کبھی اتنی سردی تو نہ تھی۔ الزامات عام ہیں شواہد کی منڈی ایسی مندی کہ الزام کبھی فردِ جرم نہ بن سکا، ساری توانائیاں سب دماغوں کی ظن و تخمیس پر صرف ہو رہی ہیں، پنجاب کے کنور کو وافر پیسہ ملا، وہ رنگ روغن، آرائشِ شہر اور فلائی اوورز پر خرچ کر رہے ہیں۔ عوام کو سستی اشیائے خوردنی، گیس، بجلی اور مفت قبر چاہئے۔ ہمارا یہ المیہ ہے جس کی عمر 72سال ہو گئی مگر ترجیحات کی ترتیب ہے کہ درست نہیں ہو پا رہی، داعیٔ انقلاب بھی اپنے عظیم منہ سے یہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن کا انقلاب فریز ہو گیا، مزا تو جب تھا کہ آپ انقلاب لاتے اور اپوزیشن اسے پگھلا کر کارآمد بناتی، مگر دونوں طرف ہے عقل میکے گئی ہوئی، کھڑکی توڑ انقلاب کے بجائے دل توڑ انقلاب پورے ملک میں کورونا وار پھیلی ہوئی ہے، کچھ اس کا بھی مداوا ہونا چاہئے، ہمارا اختلاف رحمت کی جگہ زحمت کیوں ہے؟ اختلاف رائے کو تو امت کے لئے دانائے سبلؐ نے رحمت قرار فرمایا تھا، یہ ہم کس گلی جا نکلے ہیں، کہ سب کی زبان پر ایک ہی رٹ ہے کہ ’’پگ گھنگھرو باندھ میرا ناچی تھی‘‘

٭٭٭٭

یومِ قائدؒ بھی گزار دیا

صدر، وزیراعظم:قائداعظمؒ کے فرمودات پر عمل کرنا ہو گا۔

آرمی چیف:پاکستان کو کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی۔ مختلف ایام منانے یعنی گزارنے کے ہم بہت ماہر ہیں، مگر کبھی اس قرآنی فکر پر غور نہیں کیا ’’یہ ایام ہی ہیں جنہیں لوگوں میں ہم گردش میں لاتے ہیں‘‘۔ جب کسی قوم کے دن گردش میں ہوں تو اس کے ستارے بھی نحس برجوں میں پھرتے رہتے ہیں، ہم نے وہ ستارے توڑ دیئے ہیں جو قوموں کے دن پھیر دیتے ہیں۔ اختلاف برائے اختلاف یا برائے اقتدار اس بلیک ہول سے کب نکلیں گے، اربابِ سیاست کی زبان ملاحظہ فرما لیں، نئی نسل کو کیا پڑھا سکھا رہے ہیں۔ جب بھی اخلاقیات گرتی ہے معاشیات بھی ساتھ ہی گرتی ہے، یوم قائد منانے کا مطلب ان کے مطلب کا پاکستان بنانا ہے، مگر تقریباً ہم چار ’’ویاں‘‘ کا بھی کچھ نہ بنا سکے، نتیجہ وہی ڈھاک کے دو پات، کہنے کو ہم عاشق ہیں اللہ کے، اس کے حبیبؐ کے قائداعظمؒ کے مگر؎

آئے عشاق گئے وعدئہ فردا لے کر

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخِ زیبا لے کر

پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر گیا پھر بھی ہماری آس امید کی کھیتی ہری نہیں، کیا قائد کے فرمودات پر اس طرح سے عمل کرنا تھا؟ نہ ہی کرتے تو اچھا ہوتا، کیونکہ ہم نےعمل کو بھی رسوا کیا اور اس لفظ کا معنی بدل کر رکھ دیا۔

قائداعظمؒ زندہ باد بشرطیکہ پاکستان رخشندہ باد

٭٭٭٭

ترجمہ و ترجمان

....Oجرمن سفیر:قائداعظم کی زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

مگر ہمیں کچھ کیوں نہیں ملتا؟

....Oامیر جماعت اسلامی:موجودہ اور سابق حکمرانوں نے عام آدمی کے لئے سانس لینا مشکل بنا دیا۔ اس شعر کی افادیت سمجھ آ گئی ؎

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا جماعت کو

ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے دونوں حزب

....O شہباز گل اور طاہر اشرفی نے یک آواز ہو کر کہا ہے کہ قوم جاننا چاہتی ہے نواز شریف نے وفد اسرائیل کیوں بھیجا۔

دراصل گِل صاحب اور اشرفی صاحب دونوں ایک دوسرے کا لفظی ترجمہ ہیں، جہاں تک وفد کا تعلق ہے تو ممکن ہے تبلیغ کیلئے بھیجا ہو اور ایسا تو ہماری تاریخ میں ہوتا آیا ہے۔ مریم اورنگزیب نے تو ہر دو مقربین کی محنت پر پانی پھیر دیا کہ نواز شریف دور میں کوئی وفد اسرائیل گیا نہ رابطہ ہوا، مریم ثانی ترجمہ نہیں، مریم اول کی ترجمان ہیں، ’’قیاس کئی ز گلستانِ من بہار مرا‘‘ (میرے چمن کو دیکھ کر میری بہار کا اندازہ لگا لیں)

تازہ ترین