• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ کافی دنوں سے مجھ سے ملاقات کے لئے رابطہ کررہا تھا مگر میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے ملاقات کے لئے وقت نہیں نکال پارہا تھا بلاآخر گزشتہ روز ہماری ملاقات ٹوکیو کے ایک معروف ریستوران میں طے ہوئی، ریستوران کے پارکنگ ایریا میں ہی وہ میرا انتظار کررہا تھا اور مجھے دیکھتے ہی وہ اپنی نئی اور چمچماتی ہوئی سفید رنگ کی مہنگی گاڑی سے اترا تو اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر تازگی تھی، شاید وہ اپنی خوشحالی اور بدلی ہوئی زندگی سے مجھے آگاہ کرنا چاہ رہا تھا۔ میں اسے دیکھ کر خوش اور حیران ہواکیونکہ صرف ایک برس قبل وہ مجھ سے جب ملاتھا تو انتہائی پریشان تھا، ملازمت کی تلاش میں تھا اور کاروبار کرنا چاہ رہا تھا لیکن سرمایہ نہیں تھا، میں نے ہی اسے اپنے ایک کامیاب سرمایہ کار دوست سے ملوایا تھا اور دونوں طویل عرصے سے کاروبار کررہے تھے، آج ایک سال بعد میری اس سے ملاقات ہونے جارہی تھی، سلام دعا کے بعد میں اس کے ساتھ ریستوران میں داخل ہوااوراس کے حالات بہترہونے پرمبارکباد پیش کی اورمیں نے اس کی زندگی میں اس مثبت تبدیلی کے اسباب دریافت کئے تو اس نے بتایا کہ عرفان بھائی آپ کو معلوم ہے کہ میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہوں ۔برطانیہ میں اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے منسلک تھا، جاپانی خاتون سے شادی ہوئی تو بیگم کے اصرار پر جاپان منتقل ہوگیا۔ زبان سے عدم واقفیت کے سبب ملازمت کے حصول میں کافی مشکلات پیش آئیں لہٰذا اپنا کاروبار شروع کرنے کا سوچا ،کافی دوستوں سے ملاقات ہوئی لیکن آپ کے ریفرنس سے جس پاکستانی انویسٹر سے ملاقات ہوئی، اس نے بہت ساتھ دیا اور ہم نے ڈیجیٹل کرنسی کی ٹریڈنگ کا کاروبار شروع کیا، اس نے ابتدائی طور پرپندرہ لاکھ ین یعنی تقریباََ پندرہ ہزار ڈالر سے سرمایہ کاری کا آغاز کیا، اس سے معاہدے کے تحت میں کاروبار میں ہونے والے نفع میں نصف کا پارٹنر تھا جبکہ نقصان کا ذمہ دار دوست تھا، اس اعتماد کے بعد میں نے بٹ کوائن نامی ڈیجیٹل کرنسی کی خریداری کا آغاز کیا اور دس ہزار ڈالر کا ایک بٹ کوائن خریدا، اور اس کی ٹریڈنگ کرتا رہا، باوجود اس کہ اگلے چند ماہ میں بٹ کوائن کی قیمت کم ہوتے ہوتے پانچ ہزار ڈالر تک پہنچ گئی لیکن میری ماہرانہ ٹریڈنگ کی وجہ سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوا ،پھر جب بٹ کوائن پانچ ہزار ڈالر کا ہوا تو میں نے اسے مزید دس بٹ کوائن خریدنے کا مشورہ دیا، اس نےپچاس ہزار ڈالر میں خریدلئے، لیکن چند دنوں بعد بٹ کوائن کی قیمت ساڑھے تین ہزار ڈالر ہوگئی لیکن میری ماہرانہ ٹریڈنگ کے سبب ہمیں کوئی خسارا نہیں ہوا، لیکن اس موقع پر بھی میں نے اپنے انویسٹر کو مزید بیس بٹ کوائن خریدنے کا مشورہ دیا۔میرے انویسٹر نے مجھ پر اعتماد کیا اور ہم نے ستر ہزار ڈالر میں مزید بیس بٹ کوائن خرید لئے، اس وقت ہمارے پاس بتیس بٹ کوائن ہوچکے تھے اور اب ہم صحیح وقت کا انتظار کررہے تھے ،میں روز ٹریڈنگ بھی کررہا تھا جس سے میری اچھی آمدنی ہورہی تھی لیکن پھر بٹ کوائن نے تیزی پکڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے کوائن کی قیمت پچیس ہزار ڈالر تک پہنچ گئی تو میں نے اپنے انویسٹر کے مشورے کے ساتھ بیس بٹ کوائن یکمشت فروخت کردیئے جس سے ہمیں پانچ لاکھ ڈالر کی آمدنی ہوئی جس سے اخراجات نکالنے کے بعد بھی مجھے دو لاکھ ڈالر بچے جبکہ ہمارے پاس اب بھی کافی تعداد میں بٹ کوائن موجود ہیں اور آج میں آپ کے سامنے ہوں اور آپ کو اپنا محسن سمجھتا ہوں ،میں نے اپنے دوست کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ جاپان، امریکہ ،برطانیہ اور یورپ سمیت بھارت میں بٹ کوائن کی تیاری اور خریدوفروخت کامیابی سے جاری ہے۔ پاکستان میں کیوں یہ شروع نہیں ہو پارہی تو میرے ڈیجیٹل کرنسی کے ماہر دوست نے بتایا کہ پاکستان میںبھی ہائی کورٹ، اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے اور حکومت سے پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی پر عائد غیر اعلانیہ پابندی کے خاتمے کے لئے کوششیں جاری ہیں لیکن کوئی اس جانب توجہ نہیں دے رہااورنہ ہی کوئی فریاد سننے والا ہے۔ عدالت میں اسٹیٹ بینک حکام آکر کہتے ہیں ہم نے پابندی نہیں لگوائی لیکن ایف آئی اے لوگوں کو اسٹیٹ بینک کا نام لیکر گرفتار کرلیتی ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری تعریف اور تائید کرتے ہیں لیکن ڈیجیٹل کرنسی پر عائد پابندیاں ختم نہیں کراسکتے۔ وقار ذکا کی کوششوں سے کے پی کی حکومت اجازت دیتی ہے تو ایف آئی اے وہاں بھی موجود ہے ،غرض پورے ملک میں گھن چکر کی طرح ایسے گھمایا جارہا ہے جیسے کوئی ذاتی کاروبار ہو۔حقیقت یہ ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار کی وجہ سے میں جاپان جیسے اجنبی ملک میں چند ماہ کے دوران کروڑ پتی بن چکا ہوں پاکستان میں مجھ جیسے ہزاروں ماہر موجود ہیں جو اس کاروبار سے دنوں میں لکھ پتی اور کروڑ پتی بن سکتے ہیں اور ان ہی کےلئے وقار ذکاہ کوششیں کررہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے دھرنے کے دنوں میں ان کو اسٹیج پر بلایا کرتے تھے لیکن اب وہ ملاقات کا وقت نہیں دے رہے۔ انہیں چاہئے کہ ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وزیراعظم کا پچاس لاکھ لوگوں کو ملازمت دینے کا وعدہ پورا ہوسکے اور عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع بھی مل سکے کیوں کہ جو کام پانچ سال بعد کرنا ہی ہے وہ آج ہی کرلیا جائے، امید ہے کہ بااختیار ادارے خاص طور پر وزیر اعظم اس مسئلے پر توجہ دیں گے او ر پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار میں آسانی کے لئےتمام لوازمات پورے کریں گے ۔

تازہ ترین