• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن پہلے جدید مواصلاتی رابطے پر ایک دعوت نامہ موصول ہوا ۔لاہور کےہی نہیں پاکستان کے دو نامور اہلِ قلم کے لئے چند صاحبِ نظر حضرات اپنے اپنے تعلق سے یادوں اور باتوں کا ذکر کرنا چاہتے تھے۔ مجھےدعوت نامہ تو اچھا لگا مگر یہ کیا طریقہ ہے کہ نہ دعوت نامہ دینے کوئی آیا اورنہ ہی کوئی تاکیدکی گئی اور نہ ہی دوستوں میں ذکر ہوا۔ صاحبو زمانہ کونسی چال چل رہا ہے؟ دعوت نامہ میں درج ناموں سے میری محبت اور عقیدت پرانی ہے۔ اس الفت بھری مجلس کے سب سے منفرد مقرر کے طور پر حسن نثار کا نام تھا۔ دعوت نامہ ’’نشست و تعزیتی ریفرنس‘‘ کا تھا جو میرے محسن اور مہربان سید انور قدوائی اور ایک ہم نفس اور ہم خیال بزرگ جناب عبدالقادر حسن کے حوالہ سے تھا ۔یہ دونوں حضرات پاکستان کی صحافت میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ جناب عبدالقادر حسن نے کوچہ صحافت میں کالم نگاری کے اسلوب میں ریاست اور سیاست کو ہدف بنائے رکھا ۔اس کے بعد سید انور قدوائی نوابانہ انداز میںصحافت کرتے رہے اور خبر کے ساتھ ساتھ کالم نگاری میں منفرد لہجہ اختیار کیا اور خبر کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر کالم کو اہمیت اور حیثیت دی ۔

وقت مقررہ پر جب حاضر مجلس ہوا تو اس بڑے ہوٹل کے بورڈ روم میں صدر مجلس جناب حسن نثار اور کچھ احباب تھے ۔امان قدوائی اور ضیاء نقشبندی احباب کی میزبانی میں مصروف تھے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے بورڈ روم کی تمام نشستیں پُر ہوتی گئیں اور اس محفل کی رپورٹنگ کرنے والے حضرات کھڑے رہ گئے ۔جناب عبدالقادر حسن کے بیٹے اطہر حسین کو پیر ضیاء نقشبندی نے اظہار خیال کے لئے دعوت دی۔ اطہر حسین نے والد کے ساتھ تعلق اور صحافتی کردار پر روشنی ڈالی ان کی صحافت کا سفر بھی نرالا سا تھا ۔انہوں نے بڑے لوگوں کے ساتھ کام کیا۔ لعل ونہارکے دنوں میں فیض احمد فیض کے ہاں بھی نظر آئے پھر مجید نظامی کے ساتھ بھی کام کیا ۔صحافت کی وجہ سے اہم سیاسی لوگوں سے تعلقات تو بن گئے مگر وہ سب خبر کی صحت کے لئے عبدالقادر حسن سے رجوع کرتے اور اعتبار کرتے۔ اطہر حسین پی آئی اے کے بڑے افسر ہیں اور اب بھی اپنے والد کے احباب کی پوری خبرگیری کرتے ہیں، ان سے درخواست کی کہ جناب عبدالقادر حسن کی تحریروں کو محفوظ کرنے کا جتن ضرور کریں ۔

اس ہی دوران جناب سہیل وڑائچ اور مجیب الرحمن شامی بھی تشریف لے آئے، میں سوچ رہا تھا کہ ان سب لوگوں کے ساتھ ملنے والا میرا محسن اور قدردان کمال کا صاحب نظر تھا ۔میری سید انور قدوائی سے ملاقات جنگ کے دفتر میں اتفاقیہ ہوئی۔ میں کالم دینے گیا تو وہ مرزا صاحب کے ساتھ کسی کالم پر بات کررہے تھے ۔میں نےسلام کیا، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور نزدیکی کرسی کی طرف اشارہ کیا اور مرزا صاحب سے کہا اب چائے کے لئے فون لگائو۔ اس دن کچھ دیر بات ہوئی پھر سید قدوائی سے ملاقاتوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا اور ایسا تعلق بنا جس پر شکراور فخر کیا جا سکتا ہے ۔ایک دن انہوں نے مجھ سےکہا، کل آپ کی سید سرفراز شاہ سے ملاقات کروائیں گے۔ میں حیرت زدہ تھا، میں سید سرفراز شاہ سے متاثر تو تھا ہی بلکہ اُن سے ملنا بھی چاہتا تھا مگر رب نے راستہ دکھایا بھی اور بنایا بھی اورپھر ہر ہفتہ جناب سید سرفراز شاہ کے حضور پیش ہوتے ۔یہ سلسلہ کافی سال تک چلتا رہا پھر ایک دن امان قدوانی کا فون آیا وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا، ابا چلےگئے ۔

میں 2012ء میں کافی عرصہ کے بعد واپس وطن آیا۔ ملک میں انتخابات کے حوالہ سے نت نئی کہانیوں کا تذکرہ سننے کو ملتا تھا۔میں اس سرمایہ دار جمہوری نظام کے خلاف تھا اور سید انور قدوائی سے اکثر بات ہوتی پھر 2013ء کے انتخابات کے بعد اعتراضات شروع ہوئے اور ایک وقت آیا کہ چند حلقوں پر تفتیش کا آغاز ہوا ۔اس سے پہلے جناب سہیل وڑائچ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ انتخابات کے تناظر میں انتخاب لڑنے والے امیدواروں اور ان کا انتخابی حلقوں پر بہت کام کیا اور اس کام کو کتابی شکل دینے کے بارے میں سوچا ۔اس سلسلہ میں مشاورت بھی ہوئی اور ملک کے نامور ادارے سنگ میل کے ساتھ معاملات طے ہونے جا رہے تھے کہ کس طرح سے کام مکمل کیا جائے؟پھر ایک وقفہ ہوا اور وہ وقفہ طویل ہوتا گیا۔ میں نے سید انور قدوائی سے بات کی کہ وہ اس سلسلہ میں کام کریں وہ راضی تو تھے مگر کیسے کام شروع کیا جائے، یوں اپنے اپنے ہدف مقرر کئے گئے اور مشترکہ کاوش کے طور پر ہم دونوں کی باہمی تحریر سے کتاب ’’انتخابات قصر جمہوریت کی پہلی سیڑھی‘‘ چھپ کر منظر عام پر آئی، پھر ہمارا معمول سا بن گیا کہ ہر ہفتے کے روز میں اور سید انور قدوائی جناب سرفراز شاہ کی رہائش گاہ پر حاضر ہوتے اور سید سرفراز شاہ کی باتوں سے سرشار ہوتے۔ پھر ایک دن سید انور قدوائی کہنے لگے، کتنی دنیا نے سرفراز شاہ صاحب پر کالم لکھے ہیں ان سب کو جمع کرکے ایک کتاب ترتیب دیتے ہیں ۔اس لئے سرفراز شاہ صاحب سے اجازت ضروری تھی پھر درخواست پیش کی گئی اور مقام شکر ہے کہ مرشد نے درخواست قبول کی اور 2016ء میں کتاب ’’سید سرفراز شاہ کے حضور‘‘ قیصر پبلی کیشن نے کتاب شائع کر دی۔ میں اور سید انور قدوائی ایک شام حسن نثار کے ہاں کتاب دینے گئے۔ حسن نثار نے سید انور قدوائی کی خوب آئو بھگت کی اور مجھے کہنے لگے، زیادہ کیوں نہیں لکھتے ،بھگوڑے نہ بنو؟ یوں دوبارہ کمرکس لی، ادھر محفل میں سید انور قدوائی کا ذکر احباب کر رہے تھے اور میں محفل میں بہت ہی اکیلا محسوس کر رہا تھا۔ دوستوں نے سید انور قدوائی کو بہت یاد کیا مگر یادیں تو آگ لگاتی ہیں۔ خواب اب خیال بنتے جا رہے ہیں۔

عجب تضاد میں پلتی ہے تیرے وصل کی آس

کہ ایک آگ بجھاتی ہے اک لگاتی ہے

تازہ ترین